پی ڈی ایم کی جماعتوں کی طرف سے سینٹ الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کے اعلان نے حکومت کے لئے کھلا میدان چھوڑنے کی جو امید پیدا ہوئی تھی ،وہ ختم ہوگئی ہے ،اس سلسلہ میں اگرچہ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ خفیہ رائے دہی کی بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعے سینٹ کے الیکشن کرائے جائیں، چونکہ آئین میں اس کی گنجائش موجو د نہیں ہے ،اس لئے عدالت کے پاس حکومت ایک ریفرنس لے کر گئی ہے ،جس کافیصلہ آنا ہے ،تاہم جنوبی پنجاب کے حوالے سے سینٹ میں نمائندگی کا معاملہ اس وقت خاصہ گرم ہے ،کیونکہ عملاًدیکھا جائے ،تو جنوبی پنجاب کی سینٹ میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمیشہ صرف چار سے پانچ سینٹرز جنوبی پنجاب سے سینٹ میں رہے ہیں۔
اگرچہ جنوبی پنجاب میں آبادی کے تناسب سے یہ تعداد بھی کم ہے اور کم ازکم 10سینٹرز جنوبی پنجاب سے ہونا چاہئے ،مگر اتنی بڑی نمائندگی جنوبی پنجاب کو نہیں دی جاتی ،اس بار جنوبی پنجاب سے اکثریت لینے والی پارٹی تحریک انصاف کو پہلی بار موقع مل رہا ہے اور مقامی پی ٹی آئی حلقے اورعوام یہ توقع کررہے ہیں کہ پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کو بھرپور نمائندگی دے گی ، کچھ ایسی خبریں بھی گردش کررہی ہیں کہ پیپلزپارٹی سینٹ کی چئیرمین شپ جنوبی پنجاب کو دلواناچاہتی ہے تاکہ یہاں اپنا سیاسی اثرورسوخ بڑھا سکے ،اس سلسلہ میں مصدقہ ذرائع نے یہ اطلاع دی ہے کہ پیپلزپارٹی سابق وزیراعظم و پارٹی کے سینئروائس چئیرمین سید یوسف رضا گیلانی کو نہ صرف سینٹ کا ٹکٹ دینا چاہتی ہے ،بلکہ انہیں منتخب کرکے چئیرمین سینٹ بنانے کی منصوبہ بندی بھی کررہی ہے۔
پنجاب میں پیپلزپارٹی کی اتنی نمائندگی نہیں کہ وہ کسی کو سینٹرز بنواسکے ،تاہم مسلم لیگ ن کی حمایت حاصل ہونے پر سید یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بنایا جاسکتا ہے ، دوسری صورت میں پیپلزپارٹی سندھ کے ارکان اسمبلی کے ذریعے بھی انہیں سینٹ میں پہنچا سکتی ہے ،لیکن یہ اس وقت کیا جائے گا ، جب پی ڈی ایم کی جماعتوں کے درمیان یہ بات طے ہوجائے گی کہ اگلا چئیرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی کو بنایا جائے گا ، سید یوسف رضا گیلانی کی شخصیت بڑی حد تک غیر متنازعہ ہے اور سینٹ چئیرمین کے لئے جو مرکزی حیثت ہوتی ہے۔
وہ انہیں حاصل ہے ، ویسے بھی اگرسید یوسف رضا گیلانی جیسا سیاسی پس منظر رکھنے والا شخص چئیرمین سینٹ بنتا ہے، تو حکومت کو سیاسی طور پر خاصہ نقصان پہنچ سکتا ہے ،یہ بات اس لئے بھی ناممکن نہیں ہے کہ موجودہ چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی کو بھی سیاسی حمایت حاصل نہ ہونے کے باوجود چئیرمین سینٹ بنادیاگیا ،جبکہ یوسف رضا گیلانی کی ذاتی کوششیں اور غیر متنازعہ شخصیت ان کی راہ ہموار کرسکتی ہے ،اس ضمن میں پیپلزپارٹی کی مسلم لیگ ن اور دیگر اتحادی جماعتوں سے بیک ڈور ڈپلومیسی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
موجودہ حالات میں کہ جب پی ڈی ایم حکومت کو سیاسی طور پرزچ کرنا چاہتی ہے ،اگرسینٹ الیکشن کے بعد چئیرمین سینٹ کا منصب اپوزیشن کے پاس آجاتا ہے ،تو اپوزیشن کو اپنے اہداف حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیابی ہوسکتی ہے۔ادھرپی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس ،اپوزیشن کے لئے ایک ٹانک ثابت ہوا اور مایوس کارکنوں میں امید کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے ،اپوزیشن حلقے اس کیس کو پی ٹی آئی کے لئے زہرقاتل سمجھ رہے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے پی ٹی آئی کا نکلنا ممکن نظر نہیں آرہا اور امید پیدا ہوگئی ہے کہ حکومت کو آئینی طریقہ سے ہٹایا جاسکے ، کیونکہ الیکشن کمیشن اگر اس کیس کا جلد فیصلہ دے ،تو حکومت کی رخصتی یقینی ہے ،مسلم لیگ ن کے مقامی رہنما تو اگلے دوماہ حکومت کے وجود کے حوالے سے انتہائی اہم قراردے رہے ہیں۔
بظاہر حکومت یہ ظاہر کررہی ہے کہ اسے کوئی خطرہ نہیں ہے ،مگر اس سے پیدا ہونے والی بے یقینی ایک ایسا عمل ہےکہ جس نے ملکی سیاست میں بحران پیدا کردیا ہے، اس بحران سے نکلنے کےلئے سیاسی قوتوں میں ڈائیلاگ کی بجائے حسب معمول الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے ،جس سے معاملات مذیدگھمبیر ہوتے جارہے ہیں ،واقفان حال کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور بلاول بھٹو کے اعلان کے بعد پی ڈی ایم نے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے پر بھی سنجیدگی سے غور شروع کردیا ہے ،جس کے لئے مشاورت جاری ہے۔
ادھرملتان کے دورہ کے دوران وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اس پر پی ڈی ایم بالخصوص بلاول بھٹو زرداری کو آڑے ہاتھوں لیا ، انہوں نے مختلف تقاریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو نے عمران خان کو آئینی وزیراعظم تسلیم کرکے ہی عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا ہے، اس سے ثابت ہوا کہ عمران خان سلیکٹڈ نہیں الیکٹڈ وزیراعظم ہے، انہیں سلیکٹیڈکہنا بند کیا جائے،انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم بغیر منزل کا کا رواں ہے، جس کی اپنی منزل کا نہیں پتہ کہ اسے کس طرف جانا ہے،پہلے استعفے دے رہے تھے ‘ پھر لانگ مارچ اور اب تحریک عدم اعتماد، پی ڈی ایم کا اتحادکبھی اپنی منزل کو نہیں پہنچے گا ۔ مفادات کی بنیاد پر بننے والا اتحاد کبھی کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکتا،پی ڈی ایم رہنما جھوٹ بول کر عوام کو گمراہ نہیں کر سکتے، عوام کے سامنے ان کی اصلیت عیاں ہو چکی ہے۔
عوام کا بھاری منڈیٹ رکھنے والی حکومت کو گرانے کی خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔اپوزیشن کو یہاں پر بھی مایوسی ہوگی، آئینی مدت پوری کریں گے، قومی دولت لوٹنے والوں کو کبھی این آر او نہیں ملے گا۔،بلکہ لٹیروں کا کڑا احتساب ہوگا،انہوں نے یہ بھی پیش گوئی کی کہ حکومت پانچ سال پورے کرے گی ،عمران خان کی حکومت کو ختم کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ،عوام آج بھی تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں ،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دوسری طرف قومی خزانہ لوٹنے اور عوام کو اس برے حال تک پہنچانے والے موجود ہیں ، جن کے خلاف عمران خان جہاد کررہے ہیں اور انہیں این آراو نہ دے کر ان کی اصلیت عوام کے سامنے بے نقاب کردی۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے یہ نوید سنائی گئی تھی کہ ملتان میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے وزیراعظم عمران خان اس ماہ کے آخر میں ملتان آئیں گے ، وہ چاہتے ہیں کہ ملتان آمد پر اس خطہ کے لئے کسی بڑے پیکج کا اعلان کریں ۔