• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا کی تاریخ میں پہلی فیڈرل پراسیکیوٹر پاکستانی نژاد خاتون ،صائمہ محسن، پہلی فیڈرل پراسیکیوٹر مقرر

امریکا میں مقیم پاکستانی نژاد،52 سالہ صائمہ محسن نے پہلی مسلم خاتون فیڈرل پراسیکیوٹر کا اعزاز اپنے نام کرلیا ہے۔ان کو امریکا کی ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں پراسیکیوٹر مقرر کیا گیا ہے ۔2 فروری2021ء کو وہ یہ منصب سنبھالیں گی ۔یہ امریکا کی تاریخ کی پہلی خاتون تارک ِوطن ،مسلمان امریکی اٹارنی ہوں گی ۔

صائمہ محسن پاکستان میں پیدا ہوئیں اور 2002 ء سے امریکا کے اٹارنی آفس میں کام کررہی ہیں اور اس سے قبل وہ ڈپٹی نیو جرسی اٹارنی جنرل اور مین ہیٹن میں اسسٹنٹ ڈسٹرک اٹارنی کا عہدہ بھی سنبھال چکی ہیں۔صائمہ محسن نے نیوجرسی کی روٹگیر یونیورسٹی سے گریجویٹ اور قانون میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی ۔ ان کا کہنا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے اور قانون کی عمل داری کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائوں گی ۔ماضی میں بھی ریاست مشی گن میں محکمہ انصاف میں مسلمان خواتین کام کرتی رہی ہیں ،تاہم وفاقی پراسیکیوٹر کے طور پر کسی بھی خاتون مسلمان کو پہلی بار یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

اسٹونیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم ،کاجاکلاس

صرف پاکستانی خواتین ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی خواتین اعلٰی عہدوں کا سہرا اپنے نام کرنے میں سر گرداں ہیں ۔ بحیرہ بالٹک کے کنارے آباد چھوٹے سے یورپی ملک اسٹونیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک خاتون وزیر اعظم کے عہدے پر نامزد کی گئیں ہیں ۔اسٹونیا میں 1991 ء سے کوئی بھی خاتون وزیر اعظم نہیں بنیں ۔

تاہم پہلی مرتبہ ایک رکن اسمبلی خاتون کو وزیر اعظم کے طور پر مقرر کیا گیا ہے ۔43 سالہ کاجا کلاس کے والد بھی معروف سیاستدان ہیں اور وہ بھی اسٹونیا کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔کاجاکلاس بھی 2012 سے سیاست میں ہیں اور 2019 سے قبل انہیں ریفارم پارٹی کا چیئرمین بنایا گیا تھا، جو مذکورہ عہدے پر پہنچنے والی پہلی خاتون بنی تھیں اور اب وہ ملک کی پہلی وزیر اعظم بنیں گی۔

ہریانہ میں خواتین کا انقلابی احتجاج

بھارت کے دیہی منظر نامے میں مردوں کی بالادستی کا تاثر عام ہے لیکن متنازع زرعی قوانین کے خلاف نئی دہلی کی سڑکوں پر جاری کسانوں کے احتجاج میں ہزاروں خواتین حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔احتجاج میں مویشی پالنے اور کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین سے لے کر پروفیشنل ورکرز اور ویل چیئرز پر بیٹھی بزرگ خواتین حکومت کی زراعت کے شعبے میں متعارف کرائی گئی متنازع مارکیٹ اصلاحات کو واپس لینے کےلیے احتجاج کررہی ہیں۔ 

خواتین کی بڑی تعداد نے ہریانہ سے دہلی کی طرف ٹریکٹر پریڈ کی اور اس میں ہریانہ کی ہر خاتون چاہے وہ مزدور ہو ،کسان ہو یا گھر وں میں کام کرتی ہوں سب نے حق کے خلاف اپنی آواز بلند کی ۔ہریانہ کے مرد حضرات اپنی مائوں ،بہنوں اور بیٹیوں کو ٹریکٹر چلانا سیکھا رہے ہیں ۔اس احتجاج میں شامل ہونے کے لیے وہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کررہے ہیں ۔منتظمین کا کہنا ہے کہ خواتین کو اس پریڈ میں شامل کرنا بہت بڑا چیلنج تھا۔

سماجی کارکن ،راج کماری داہیہ کا ا س بارے میں کہنا ہے کہ پہلے خواتین احتجاج کرنے کے لیے گھروں سے نکالنے میں ڈر رہی تھیں ،پھر ہم دو ،تین گائوں میں گئے، وہاں خواتین کو گھروں سے باہر نکالنے کے لیے ہمت دلائی ۔وہاںکی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ فصلوں کی بوائی اور کٹائی سے لے کر تما م مراحل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور اس کے باوجود انہیں غربت، گھریلو تشدد اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تازہ ترین