• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نگراں حکومت نے مجموعی قومی پیداوار(جی ڈی پی) کی بنیاد میں تبدیلی کی منظوری دیدی ہے ساتھ ہی سرکاری کھاتوں کے نظام (ایس این اے) کو 1993 سے 2008 تک منتقل کرکے قومی کھاتوں کے ناپ تول میں بھی تبدیلی کی ہے۔ یہاں دو امور زیر بحث ہیں۔ ایک کا تعلق جی ڈی پی کی بنیاد میں تبدیلی اور دوسرا ایس این اے کو 1993سے2008 تک منتقل کرنا ہے۔ سرکاری کھاتوں کی بنیاد میں تبدیلی کی ضرورت کیوں لازمی ہے؟ یہ حقیقت ہے کہ کئی سالوں سے پیداوار اور کئی اشیاء کی متعلقہ قیمتوں میں ساختیاتی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ مسلسل ترقی اور تخلیق کی بدولت نئی اشیاء بازار میں وارد ہوئیں اور کئی اشیاء متروک ہوکر مارکیٹ سے غائب ہوگئیں۔ مزید برآں، صارفی اور سرمایہ کاری کے رجحانات کو بھی ساختیاتی تبدیلیوں کا سامنا رہا۔ معقول وقت کے وقفے میں پیداوار، صارفیت اور ملک میں ہونے والی سرمایہ کاری کی وجہ سے ہونیوالی ساختیاتی تبدیلیوں کے عوامل سرکاری کھاتوں میں تبدیلی کا موجب بنے۔
عالمی سطح پر کچھ ممالک میں جی ڈی پی کی بنیاد میں تبدیلی ہر 5سال بعد کی جاتی ہے، دوسروں میں 10سال اور کچھ ممالک تو ہر سال اس میں تبدیلی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کے لائحہ عمل میں تسلسل نہیں رہا۔ یہاں جی ڈی پی کی بنیاد میں تبدیلی میں کئی دہائیوں کی تاخیر ہوئی پھر 5سال کے وقفے کو اس کام لئے طے کیا گیا، جوکہ 1999سے2000 اور 2005-6 تک تھا۔ میں نشاندہی کرنا چاہوں گا کہ اس تبدیلی کے نتائج کو پچھلے سال 26 اپریل2012کو نیشنل اکاوٴنٹس کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا جس کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں شور مچا اور وزیر خزانہ کو کڑی نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا۔ جی ڈی پی کی بنیاد میں تبدیلی اور ایس این اے 2008کے تحت ناپی گئی سال2011-12 کی شرح پیداوار کا اصل ہندسے کو حکومت کی جانب سے قبول نہیں کیا گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جی ڈی پی کی بنیاد میں تبدیلی اور ایس این اے کو 2008پر لے جانے کی حالیہ مشق سرکاری کھاتوں کے ماہر جرمنی سے تعلق رکھنے والے برنڈ اسٹرک نے پی بی ایس کے اسٹاف کی معاونت سے کی ہے۔ سرکاری کھاتوں میں حالیہ تبدیلی برنڈاسٹرک صاحب کی 7سالہ کاوشوں کانتیجہ ہے۔ گزشتہ برس انکے جانے سے قبل پی بی ایس نے اس بم کو گرانے کا فیصلہ کیا، جس کا خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا۔ شاید اسٹرک صاحب بھی جرمنی روانہ ہونے سے قبل اپنی تعظیم میں کچھ واپس لینا چاہتے تھے۔ ایس این اے 2008 انتہائی جدید ہے۔ یہ جی ڈی پی اور اسکی جزئیات کو فیکٹر کاسٹ کے بجائے بنیادی قیمتوں پر ناپنا ہے،یہ دگنی ڈیفلیشن کی قیمتوں کو استعمال کرتا ہے، تسخیری قیمت، خدمات کو مالی بین الثالثی سطح پر بلاواسطہ ماپتا ہے(ایف آئی ایس ایم) اور دوسری کئی پیچیدہ ٹیکینکسں بروئے کار لاتا ہے۔
یہاں دو سوال سامنے آتے ہیں، پاکستان کی طرح کتنے ترقی پذیر ممالک نے ایس این اے 2008 اپنایا؟ اور کیا بھارت میں وہاں کے کئی اداروں میں موجود عالمی سطح کے ماہرین شماریات نے ایس این اے 2008کو اپنایا؟ کیا ہمارا اعدادوشمار اکٹھا کرنے کا نظام اتنا مضبوط ہے کہ ہمیں سرکاری کھاتوں کی بنیاد کو ایس این اے 2008 پر منتقل کرنے کیلئے تمام درکار معلومات حاصل ہوجائیں گی۔ جنہوں نے پی بی ایس کے اسٹاف کے ساتھ کئی دہائیوں تک کام کیا ہے وہ ادارے کی تکنیکی استعداد سے واقف ہیں۔ کیا پی بی ایس نے اپنے اسٹاف کو ایس این اے 2008کو سنبھالنے کی تر بیت دی ہے یا وہ سرکاری کھاتوں کا حساب اسٹرک صاحب کے تیار کردہ مختلف فارمولوں سے لگانا جاری رکھیں گے۔ سرکاری کھاتوں کی بنیادی میں1980-81 سے 1999-2000 تک تبدیلی کرتے وقت درجنوں ملکی وغیر ملکی ماہرین کی مدد سے ایک عظیم کوشش کی گئی۔ اس وقت کے وفاقی ادارہ برائے شماریات(ایف بی ایس) نے سرکاری کھاتوں کی تکنیکی کمیٹی(ٹی سی این اے) تشکیل دی تھی۔ٹی سی این اے کمیٹی کو سیکٹورل ایشوز کو انفرادی طور پر جانچنے کیلئے 8ذیلی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ ایف بی ایس نے معیشت کے کئی شعبوں پر 23رپورٹس مرتب کیں۔ٹی سی این اے نے ان رپورٹس کا جائزہ لے کر مزید تکنیکی معاونت کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کیا تاکہ استعمال ہونے والے اعدادوشمار اور طریق کار کی دوبارہ جانچ کی جاسکے۔ نیشنل اکاوٴنٹس کمیٹی کے2003میں ہونیوالے اجلاس میں اس وقت کی جی ڈی پی کی بنیاد میں تبدیلی کی مشق کی منظوری دیدی اور ملک قوم کے کھاتوں کی بنیادمیں 1980-81سے1999-2000 تک تبدیلی ہوگئی۔ میرے بہترین علم و ادراک کے مطابق جی ڈی پی کی بنیاد میں 1999-2000سے2005-06 تک تبدیلی کرتے وقت اور ایس این اے 2008 اپناتے وقت ایسی کوششیں نہیں کی گئیں۔ 2005-06کو بنیادی سال بناکر جی ڈی پی اور اسکی جزئیات اور سرمایہ کاری سے متعلق اعدادوشمار کی منظوری اور اجراء جلدی میں کیا گیا۔ 2012-13 کی جی ڈی پی کے تخمینے8سال پرانے بنیادی سال پر ہیں، اسی لئے اس میں تاریخ درج کی گئی ہے۔ ویسے تو اسکا امکان نہیں لیکن اگر جی ڈی پی کی بنیادی تبدیل کرنے کی مشق دوبارہ 5سال میں بھی کی گئی تو پھر ہمیں سرکاری کھاتوں کا حساب 13سال پرانے بنیادی سال کی وساطت سے ملے گا۔ کیا جی ڈی پی کی بنیادی میں تبدیلی کی مشق فائدہ مند تھی یا ہمیں یہ مشق زیادہ پہلے کرنی چاہئے تھی۔ جنہیں سرکاری کھاتوں کی سمجھ ہے یا وہ انہیں استعمال کرتے ہیں ان سے کم یا بالکل مشاورت نہیں کی گئی۔ اس مشق کی تکنیک خراب تھی کیونکہ اس کام کا جائزہ لینے کیلئے اس وقت کے وزیر خزانہ نے جن ارکان کو کہا تھا وہ تکنیکی طور پر قابل نہیں تھے۔ وزیر خزانہ، پلاننگ کمیشن اور اسٹیٹ بنک آف پاکستان کو اس پوری مشق میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ ان سب اداروں کو اس وقت اس مشق کا پتہ چلا جب اسکے نتائج گزشتہ برس پیش کئے گئے۔ دلچسپ طور پر پاکستان میں سرکاری کھاتوں کے اعدادوشمار تسلسل کے ساتھ دستیاب نہیں ہیں۔ نامکمل اعدادوشمار کی روشنی میں کوئی بامعنی تحقیق ممکن نہیں ہے۔ہر تحقیق کنندہ اپنے تئیں سرکاری کھاتوں کی سیریز تسلسل کے ساتھ مرتب کرتا ہے جس میں وہ مختلف طریق کار استعمال کرتا ہے۔ سرمایہ کاری کے اعدادوشمار مکمل طور پر مسخ شدہ ہیں۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا کے لفظوں میں یہ اعدادوشمار محض بکواس ہیں۔ اسی اثناء میں میری بالعموم نئی حکومت کو اور بالخصوص وزیر خزانہ کو یہ تجویز ہے کہ سرکاری کھاتوں کو استعمال کرنے والوں، ماہر معاشیات اور ماہر شماریات پر مشتمل ایک اعلیٰ سطح کمیٹی تشکیل کی جائے جس سے طریق کار، حساب اور بنیادی اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے۔ حکومت کو آئی ایم ایف سے بھی ان اعدادوشمار کی دوبارہ تصدیق کرانے کیلئے تکنیکی معاونت کرنے کی درخواست کرنی چاہئے۔ اگران تجاویز کو اپنایا گیا تو اس سے نہ صرف ان اعدادوشمار پر اعتماد دوبارہ بحال ہوگا بلکہ بی پی ایس کے اسٹاف کا بھی اعتماد بحال ہوگا۔ ہم چونکہ ان اعدادوشمار کو استعمال کررہے ہیں یہ لازمی ہے کہ ہم ان اعدادوشمار، پی بی ایس کی تکنیکی استعداد اور گنتی پر اعتماد کریں۔ یہ اعدادوشمار کے استعمال کرنے والوں اور انہیں مرتب کرنے والوں کیلئے اچھا ہے۔
تازہ ترین