اسلام آباد ( عمر چیمہ ) ذہنی بیمار قیدیوں کو سزائے موت دی جاسکتی ہے یا نہیں ، س بارے میں سپریم کورٹ آج فیصلہ کرے گی ۔یہ کیس 2018 میں سب سے پہلے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے زیر سماعت آیا تھا ۔جس میں تین افراد کنیزاں بی بی ، امداد علی اور غلام عباس کی زندگیاں دائو پر لگی ہوئی تھیں .یہ تینوں افراد شقاق دماغی یا ہزیان میں مبتلا ہو تے ہیں ۔ یہ تمام افراد اپنی اپیل کا حق آزما چکے ہیں ۔ صدر پاکستان نے بھی ان کی رحم کے لئے اپیلیں مسترد کردیں ۔ان کا یہ کیس اس وقت جسٹس منظور ملک کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا پانچ رکنی بنچ کے زیر سماعت ہے ۔ ساب ق چیف جسٹس ثاقب نثار نے 2018 میں اپنے پیشرو کے بعد اس کیس کا از خود نوٹس لیا تھا ۔انور ظہیر جمالی نے 2016 میں کہا تھا کہ شیزو فرینیا کوئی مستقل عارضہ نہیں ہے ۔ ایک غیر منافع بخش قانونی فرم جسٹس پروجیکٹ پاکستان اس کیس میں مذکورہ افراد کا دفاع کر رہی ہے ۔ ماضی میں ذہنی بیمار افراد کی انتہائی سزا پر عمل درآمد عدالت کی مداخلت پر آخری لمحات میں روک دیا گیا تھا ۔اب تک ایسے ایک سو افراد کو پھانسی کی سزا دی جا چکی ہے جن میں منیر حسین انتہائی سزا پانے والا آخری قیدی تھا ۔اس کے اہل خانہ کے مطابق اسے یہ تک یاد نہ تھا کہ اسے کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے ۔حتیٰ کہ پھانسی سے قبل اپنے پیاروں سے آخری ملاقات میں وہ انہیں شناخت بھی نہ کر پایا۔زیر بحث کیس سپریم کورٹ اس وقت پہنچا جب کنیزاں بی بی کے کیس کا از خود نوٹس لیا گیا ۔درمیانی عمر کی کنیزاں بی بی کو 1991 میں سزائے موت سنائی گئی تھی ۔جس کے بعد اس کی ذہنی صحت بگڑنا شروع ہو گئی ۔اسے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ منتقل کیا گیا جہاں شیزو فرینیا تشخیص ہوا ۔وہ اطراف میں ماحول سے بے گانہ ہو گئی ۔وہ خود کھا سکتی تھی اور اپنے سے کپڑے پہن سکتی تھی ۔اسپتال کا عملہ گواہ ہے کہ وہ 2006 سے وہاں قیام کے دوران ایک لفظ تک نہ بولی ۔اس کے اہل خانہ کے مطابق کنیزاں اپنی گرفتاری کے وقت 16 سال کی تھی ۔اسے پولیس حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ اس نے اپنی زندگی کے 30 سال سزائے موت کے قیدی کی حیثیت سے گزارے ۔ امداد علی بھی شقاق ذہنی کی بیماری میں مبتلا رہا ۔اسے 2002 میں سزائے موت سنائی گئی تھی ۔اس نے سزائے موت کے قیدی کی یثیت سے 20 سال کاٹے ۔اسے جیل اسپتال میں چار سال قید تنہائی میں بھی رکھا گیا ۔اس کی حالت بگڑتی چلی گئی ، وہ انتہائی غریب گھرانے کا فرد ہے اور سزا سنائے جا نے کے بعد نجی میڈیکل کنسلٹنٹس کی خدمات کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا جو عدالت میں اس کی ذہنی بیماری کی وضاحت کر سکیں ۔بالآخر اسے 2001 میں ایک دینی مدرس کو رائفل سے ہلاک کر کے الزام میں سزائے موت سنا دی گئی ۔ اس کی ذہنی بیماری کو 1998 میں سب سے پہلے اس کے اہل خانہ نے محسوس کیا جب وہ سعودی عرب سے واپس آیا تھا ۔اہل خانہ کا کہنا تھا کہ امداد خود کلامی کرتا تھا ۔اس کی اہلیہ نے اپنے شوہر کی ذہنی صحت کا معاملہ عدالت میں اٹھایا ۔جج بھی اس کی ذہنی بیماری کا ذکر کر نے میں ناکام رہے ۔اس کی عدالتوں میں اپیلیں مسترد ہوتی رہیں اور 2016 میں دو بار اس کے ڈیتھ وارنٹ جاری کئے گئے ۔غلام عباس بھی اسی مرض کا شکار رہا ۔وہ 2006 میں گرفتار ہوا اور سزائے موت کے قیدی کی حیثیت سے 15 سال گزار دئے ۔ اس کے خاندان میں ذہنی بیماری کی مثالیں موجود ہیں ۔اس کے باپ نے گلا کاٹ کر خودکشی کی کوشش کی ۔ اس کی پھوپھیاں اور ایک بہن بھی ذہنی بیماری میں مبتلا رہے سپریم کورٹ کی جانب سے قائم ایک پانچ رکنی میڈیکل بورڈ نے اکتوبر 2020 میں غلام عباس کو شقاق دماغی کا مریض قرار دیا ۔