اسلام آباد(رانا مسعود حسین) سپریم کورٹ نے وزیر اعظم ترقیاتی فنڈز کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔5صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے تحریر کیا۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی وزیراعظم سے متعلق کیسز کی سماعت نہ کریں کیونکہ انہوں نے وزیر اعظم کے خلاف کیس کررکھا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا ہے کہ غیر جانب داری کا تقاضا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وزیراعظم سے متعلق مقدمات نہ سنیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ وزیر اعظم کا جواب کافی مدلل ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم کے خلاف ایک مقدمہ بھی کررکھا ہے ،اس لئے انکے اس کیس کی سماعت کرنا مناسب نہیں ہے۔
عدالت وزیراعظم آفس کے ساتھ محاذ آرائی کرنے کیلئے نہیں بیٹھی ہے سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں ترقیاتی کام کرانے کے لئے ترقیاتی فنڈز کی مد میں فی رکن اسمبلی 50 کروڑ روپے کی گرانٹ کے حکومتی اعلان کی روشنی میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے ترقیاتی فنڈز کے اجرا کے صوابدیدی اختیارات کی وضاحت سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم اور چاروں صوبائی حکومتوں کے جوابات کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے از خود نوٹس کیس نمٹا دیا ہے۔
5صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جسٹس چیف جسٹس گلزار احمد نے قلمبند کیا ہے، میں قرار دیا گیا ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم، اراکین پارلیمنٹ یا کسی بھی نمایاں شخصیت کو وزیر اعظم کی صوابدید پر کوئی ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کئے جاسکتے ہیں، حکومتی بجٹ کسی شخصیت کے گرد گھومنے کی بجائے ضرورت کے مطابق خرچ کیا جاتا ہے، اور اس کی منظوری قومی اسمبلی دیتی ہے۔
فیصلے کے مطابق وزیر اعظم کو آئین کے آرٹیکل 248کے تحت عدالتی استثنیٰ حاصل ہے،فیصلے کے مطابق جواب میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کے پبلک فنڈز کسی بھی پارلیمنٹیرین کو مختص نہیں کئے جارہے ہیں اور اس حوالے سے خبریں درست نہیں ہیں، کسی بھی قانون ساز کو ترقیاتی منصوبوں کیلئے کوئی رقم نہیں دی جائے گی۔
فیصلے کے مطابق حکومت پنجاب کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے نہ تو کسی رکن کو کوئی فنڈ جاری کیا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا ارادہ ہے۔
فیصلے کے مطابق حکومت ہائے سندھ ،خیبر پختونخوا، بلوچستان کی جانب سے جمع کرائے گئے جوابات میں بیان کیا گیا ہے کہ کسی بھی رکن اسمبلی یا کسی نمایاں شخصیت کو کسی قسم کا کوئی فنڈ جاری نہیں کیا گیا اور ان کی حکومتیں آئین، قانون اور سپریم کورٹ کے ایک سابق فیصلے کی روشنی میں ہی ترقیاتی منصوبوں پر کام کراتی ہیں،عدالت نے وزیراعظم اور چاروں صوبائی حکومتوں کے جواب پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے از خود نوٹس کیس نمٹا دیا ہے۔
فیصلے کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے دوران واٹس ایپ پر ملنے والی کچھ دستاویزات پیش کی ہیں، تاہم انہیں خود بھی ان کے مصدقہ ہونے کایقین نہیںہے،اس لئے اٹارنی جنرل نے استدعا کی ہے کہ انہیں ریکارڈ کا حصہ نہ بنایا جائے، اٹارنی جنرل نے مزید کہا ہے کہ جس معاملے میں کوئی جج خود شکایت گزار ہو اسے اس کیس کی سماعت نہیں کرنی چاہئے۔
فیصلے کے مطابق چیف جسٹس نے مشاہدہ کیا ہے کہ چونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیر اعظم کے خلاف سپریم کورٹ میں ذاتی حیثیت میں ایک درخواست دائر کررکھی ہے اس لئے ان کے لئے اس کیس کی سماعت کرنا مناسب نہیں ہے۔
قبل ازیں جمعرات کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم ،جسٹس عمر عطا بندیال ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو صوبائی چیف لاء افسران اور اٹارنی جنرل خالد جاوید خان پیش ہوئے جبکہ سیکرٹری خزانہ کی جانب سے وزیر اعظم کی دستخط شدہ رپورٹ عدالت عظمی میں جمع کرائی گئی۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کی جانب سے سیکرٹری کی و زیر اعظم کے دستخطوں سے جواب مانگنے کے گزشتہ روز کے حکم نامہ پر اعترض اٹھایا اور موقف اختیار کیاکہ وزیر اعظم نے جواب جمع کرا دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی رکن اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہیں دیئے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جواب میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ وفاقی حکومت نے اراکین اسمبلی کو کسی قسم کے کوئی ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کئے ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا وزیر اعظم اس حوالے سے ذاتی طور پر جوابدہ تھے؟
وزیر اعظم کو تو ایسے معاملات میں آئین کے آرٹیکل 248کا تحفظ حاصل ہے، انہوں نے واضح کیا کہ وزیر اعظم عدالت کو اس وقت جوابدہ ہوتا ہے جب معاملہ براہ راست ان کی ذات سے متعلق ہو، انہوں نے کہا کہ اگر کسی معاملے میں عدالت کے سامنے حکومت جوابدہ ہو تو وزیراعظم سے نہیں پوچھا جاسکتا ہے۔
عدالت کے حکم نامہ میں بھی وزیراعظم کے سیکرٹری سے جواب مانگا گیا تھا، انہوں نے واضح کیا کہ حکومت سیکرٹریوں کے ذریعے چلائی جاتی ہے، انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کوئی غیرقانونی حکم جاری نہ کرنے دیا کریں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ آپ جو اعتراض آج اٹھا رہے ہیں، کل ہی کیوں نہیں اٹھایا تھا؟، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئینی سوال کسی بھی سطح پر اٹھایا جاسکتا ہے، کسی رکن اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہیں دیئے جاسکتے ہیں۔
جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ کل مجھے واٹس ایپ پر کسی نے کچھ دستاویزات بھیجی ہیں کہ قومی اسمبلی کے حلقہ65 میں حکومت کے ایک اتحادی رکن اسمبلی کو بھاری بھر کم فنڈز جاری کئے گئے ہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا سڑکوں کی تعمیر کے لئے مخصوص حلقوں کو ہی فنڈز جاری کئے جاسکتے ہیں، کیا حلقے میں سڑک کی تعمیر کیلئے فنڈز دینا آئین اور قانون کے عین مطابق ہے؟ انہوں نے واضح کیا کہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں، لیکن عوام کے پیسے اور آئین کے محافظ ہیں، امید ہے کہ آپ بھی چاہیں گے کہ بدعنوانی پر مبنی اقدامات نہ ہوں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا وزیراعظم کا کام لفافے تقسیم کرنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ کارکردگی دکھانے کے لئے پانچ سال کی مدت کم ہوتی ہے، وزیراعظم کو چاہئے کہ ووٹ میں توسیع کے لئے اسمبلی سے رجوع کریں۔
انہوں نے اٹارنی جنرل کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے شاید میری بات ہی نہیں سنی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے بنچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فاضل جج کافی دیر سے آبزرویشن دے رہے ہیں، میری بات تو سنی ہی نہیں گئی ہے، حکومت ان کی واٹس ایپ والی شکایت کا جائزہ لے گی۔
جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ مجھے شکایت کنندہ نہ کہیں میں صرف نشاندہی کررہا ہوں، انہوں نے کہا کہ میرے خلاف ٹوئٹس کی بھرمار ہورہی ہے، کیا کرپٹ پریکٹس کے خلاف اقدامات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں ہے؟
انہوں نے کہا کہ معلوم نہیں کہ وزیراعظم کو سیاسی اقدامات پر آئینی تحفظ حاصل ہے یا نہیں؟ لیکن ماضی میں بھی سپریم کورٹ وزرائے اعظم کو طلب کرتی رہی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم کا جواب کافی مدلل ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم کے خلاف ایک مقدمہ بھی کررکھا ہے، اس لئے ان کے اس کیس کی سماعت کرنا مناسب نہیں ہے، عدالت وزیر اعظم آفس کے ساتھ محاذ آرائی کرنے کیلئے نہیں بیٹھی ہے۔