اسلام آباد(نمائندہ جنگ، جنگ نیوز) عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت کی جانب سے ’’سینیٹ کے انتخابات کیلئے کھلے عام رائے شماری کا طریقہ کار رائج کرنے‘‘ کے حوالے سے ذیلی قانون سازی سے متعلق قانونی و آئینی رائے کے حصول کیلئے دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ سینیٹ الیکشن میں قومی و صوبائی اسمبلیوں میں موجود سیاسی جماعتوں کے اراکین اپنی اپنی جماعت کے امیدواروں کو ووٹ دینے کے پابند ہیں، دوران سماعت الیکشن متناسب نمائندگی پر کرانے کی بحث چل نکلی، جس پر فاضل ججوں کی رائے منقسم تھی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیسے تعین کرتے ہیں انتخابات متناسب نمائندگی سے ہوئے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ متناسب نمائندگی کیلئے الیکشن کی ضرورت ہی نہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ووٹ ہمیشہ کیلئے خفیہ نہیں رہ سکتا،چیف جسٹس کہا کہ سینیٹ انتخابات میں ووٹ چوری ہوئے تو ذمہ دار الیکشن کمیشن ہوگا، کسی جماعت نے تناسب سے زیادہ سیٹیں جیتیں تو سسٹم تباہ ہو جائیگا، بتایا جائے ایسی صورت میں الیکشن کمیشن کیا کریگا، کیا متناسب نمائندگی نہ ہونے سے سینیٹ الیکشن کالعدم ہوجائینگے، الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ووٹوں کو خفیہ رکھنے کا مطلب ہے کہ ہمیشہ ہی خفیہ رہیں گے، اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لوگ اسلام آباد میں نوٹوں سے بھرے بیگ لئے سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کررہے ہیں، اس دفعہ ادائیگیوں کا طریقہ کار بدل چکا ہے، اب ہنڈی کے ذریعے دبئی میں بھی ادائیگیاں ہورہی ہیں، دبئی کی ادائیگیوں کا ریٹ بھی زیادہ ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم،جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس یحی آفریدی پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے منگل کے روز آئین کے آرٹیکل 186کے تحت دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کی تو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور الیکشن کمیشن کے اراکین ذاتی طور پرعدالت میں پیش ہوئے جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے سینیٹ انتخابات میں کرپٹ پریکٹسز کو روکنے سے متعلق تجاویز پیش کرتے ہوئے واضح الفاظ میں اٹارنی جنرل کی تجاویز کی مخالفت کی اور کہا کہ سینیٹ الیکشن میں ڈالا گیا ووٹ خفیہ ہی رہے گا،ڈالے گئے ووٹ کی سیکریسی ختم کرنے کیلئے آئین میں ترمیم کرنا ہوگی،انہوںنے کہاکہ ڈالا گیا ووٹ کسی کو نہیں دکھا یا جاسکتا ہے،سیکریسی کا مطلب مکمل سیکریسی ہے جبکہ ووٹر ووٹ ڈالنے میں مکمل طور پر آزاد ہے۔ انہوںنے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ سینیٹ الیکشن میں کرپٹ پریکٹسز کو روکنے کیلئے نگران کمیٹی قائم کردی گئی ہے، جس میں نیب، نادار، ایف آئی اے،ایف بی آر،ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک کے نمائندے شامل ہونگے۔ انھوں نے بتایا کہ مذکورہ شعبوں سے شامل ہونے والے افراد کے نام ملنے کے بعد ویجلنس کمیٹی کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردیا جائیگا جبکہ اسکے علاوہ ہر امیدوار سے ووٹوں کی خریدو فروخت نہ کرنے کا بیان حلفی بھی لیا جائیگا، اس سلسلے میںآن لائن شکایات سینٹر قائم کر دیا گیا ہے،جس میں ستمبر سے ابتک 11 سو سے زائد شکایات موصول ہوئی ہیں۔ دوران سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سینیٹ الیکشن متناسب نمائندگی کے تحت ہوتے ہیں اور متناسب نمائندگی کے مطابق قومی وصوبائی اسمبلیوں میں سیاسی جماعتوں کے اراکین کی تعداد کے تناسب سے سینیٹ میں نمائندگی ملنی چاہیے، جس جماعت کی سینیٹ میں جتنی نشستیں بنتی ہیں اسی تناسب سے اسے اتنی ہی ملنی چاہئیں، کوئی جماعت تناسب سے ہٹ کر سیٹیں جیت لے تو سسٹم تباہ ہو جائیگا۔ انہوںنے کہا کہ سیکریسی مستقل نہیں ہے،ووٹ کو تا قیامت خفیہ نہیں رکھا جاسکتا ہے،آئین میں سینیٹ الیکشن کیلئے فری ووٹ کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے،آزادانہ ووٹ صرف عام انتخابات کیلئے استعمال ہو اہے۔ انہوںنے کہاکہ آئین کے مطابق سینیٹ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، اگر سینیٹ کے الیکشن میں سیاسی جماعتوں کو اسمبلیوں میں موجود انکی تعداد کے تناسب سے نمائندگی نہ ملے تو الیکشن کمیشن پر ذمہ داری عائد ہوگی۔ انہوںنے مزید کہاکہ جس لمحے متناسب نمائندگی کے اصول پامال ہونگے، یہ الیکشن کمیشن کی ناکامی ہوگی، اگر الیکشن کمیشن کا موقف مان لیا جائے کہ سینیٹ الیکشن میںووٹر کو مکمل آزادی ہے تو پھر متناسب نمائندگی کے اصول ختم ہوجائینگے۔ فاضل جج کا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن میں ووٹر اپنی مرضی سے ووٹ نہیں ڈال سکتا ہے وہ اپنی جماعت کے امیدوار کو ووٹ دینے کا پابند ہے، یہ ووٹ انکا ذاتی ووٹ نہیں ہے۔دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل نے موقف اپنا یا کہ اگر ان اصولوں پر سینیٹ الیکشن ہونے ہیں تو پھر انتخابات کرانے کی کیا ضرورت ہے؟خواتین نشستوں پر نامزدگیوں کی طرح سینیٹ اراکین کو بھی نامزد کیا جائے،جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن اسلئے کرائے جاتے ہیں کیونکہ آزاد امیدوار بھی مقابلے کیلئے کھڑے ہوتے ہیں،جس پرفاضل وکیل نے کہا پھر تو معاملہ حل ہوگیا ؟جب آزاد امیدوارسینیٹ الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں تو پھر تو انھیں ووٹ بھی دیا جاسکتا ہے؟چیف جسٹس نے کہا ماضی میں متناسب نمائندگی کے کیا نتائج سا منے آئے ہیں، جس جماعت کے دس سنیٹرز بن سکتے تھے انکے پندرہ سینیٹر کیسے ہوگئے،الیکشن کمیشن نے اب تک کیا کیا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ووٹ خفیہ رکھنے کی شرط صرف ووٹ ڈالنے تک ہے، جسکے جواب میں الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا پھر اس کیلئے آئین میں ترمیم کرنا ہوگی۔ انہوںنے کہاکہ سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل 226 کا اطلاق ہوتا ہے، آرٹیکل 218 کی تشریح سے 226 کو غیر موثر نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ آرٹیکل 226 کی سیکریسی کو محدود کیا جا سکتا ہے۔ انہوںنے کہا کہ ووٹوں کو خفیہ رکھنے کا مطلب ہے کہ ہمیشہ خفیہ ہی رہیں گے، کاسٹ کیے گئے ووٹ کبھی کسی کو دکھائے نہیں جاسکتے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا قیامت تک ووٹ خفیہ رہنا آئین میں ہے نہ عدالتی فیصلوں میں، سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی خرید وفروخت کے الزام لگتے ہیں، ووٹ فروخت کرنے سے متناسب نمائندگی کے اصول کی دھجیاں اڑیں گی، کوئی جماعت تناسب سے ہٹ کر سیٹیں جیت لے تو سسٹم تباہ ہو جائیگا۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ اگر کوئی جماعت تناسب سے زیادہ سینیٹ سیٹیں لے تو الیکشن کمیشن کیا کریگا؟ الیکشن کمیشن کیسے تعین کرتا ہے کہ انتخابات متناسب نمائندگی سے ہوئے ہیں؟جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ کسی کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے نہیں روک سکتے ہیں، آزادانہ ووٹ نہ دیا تو سینیٹ انتخابات الیکشن نہیں سلیکشن ہونگے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسمبلیوں میں نمائندگی کے تناسب سے سینیٹ الیکشن کے نتائج آنے چاہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر نتائج نمائندگی کے تناسب سے نہ آئیں تو کیا پھر انتخابات کو ان ویلڈ قرار دیدیں ؟انہوںنے کہا ووٹ سیکرٹ رکھیں لیکن نتیجہ نمائندگی کے تناسب کے مطابق ہونا چاہیے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اگر نتیجہ نمائندگی کے تناسب سے نہ ہو تو پھر الیکشن کمیشن معاملہ دیکھے گا۔اٹارنی جنرل نے کہا الیکشن کمیشن پارٹی سربراہ کو لکھے گا کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ تو نہیں کی ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا آئین میں لفظ گارڈ لکھا ہے،یعنی چوری کو روکنا،یہ نہیں لکھا کہ چوری ہوجائے تو چور کو پکڑو بلکہ لکھا ہے چوری ہونے ہی نہ دو، الیکشن کمیشن کو وہی اختیارات حاصل ہیں جو آئین نے صرف سپریم کورٹ کو دیئے ہیں،لیکن اگر الیکشن کمیشن اپنا اختیار استعمال نہیں کریگا توا نتخابی نظام مفلوج ہوجائیگا۔چیف جسٹس نے کہا پیسے دینے والوں کے پاس بھی کوئی سسٹم تو ہوتا ہے کہ بکنے والا ووٹ دیگا یا نہیں؟ انہوںنے کہاکہ الیکشن کمیشن کو معلوم ہے لیکن ہمیں بتا نہیں رہے ہیں، ملک کی قسمت الیکشن کمیشن کے ہاتھوں میں ہے، الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری کو سمجھے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بے ایمانی بھی ایمانداری سے کی جاتی ہے جب پیسے لیے جاتے ہیں تو ووٹ بھی یقینی ہوتا ہے۔ ا نہوںنے تجویز دی کہ بیلٹ پیپرز پر کوئی سیریل نمبر نہ لگائے لیکن بار کوڈ لگائے جس کا صرف الیکشن کمیشن کو پتہ ہو اور تنازعہ کی صورت میں وہ خود اس کو ٹریس کرے۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کریگا تو یہ ہوگا جس پر اٹارنی جنرل نے استدعا کی عدالت تشریح کرے، الیکشن کمیشن خود سے نہیں کریگا۔چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ اگرسینیٹ الیکشن کا کوئی تنا زع عدالت میں آتا ہے تو کیسے پتہ چلے گا کہ کس نے کس کو ووٹ دیا تھا؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا انتخابی اخراجات کیلئے الگ اکائونٹ کھولنے سے ہارس ٹریڈنگ کو نہیں روکا جاسکتا ہے،اس کیلئے کالا دھن استعمال ہوتا ہے اور کالا دھن بینکوں کے ذریعے منتقل نہیں ہوتا ہے، منشیات اور دو نمبر کی کمائی بیگوں کے ذریعے ادھر سے ادھر ہوتی ہے۔