• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف الیکشن کمشنر نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا

اسلام آباد (تبصرہ / عمر چیمہ)2016ء میں عام انتخابات کے وقت جب سکندر سلطان راجا آزاد کشمیر کے چیف سیکریٹری اور نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم تھے ان کی کابینہ کے کچھ وزراء کوجو سرکاری گاڑیوں میں سوار تھے انہیں کوہالہ کے پل پر روکا گیا جب وہ انتخابی مہم کے سلسلےمیں آزاد کشمیر میں داخل ہونے کو تھے۔

سرکاری گاڑیوں کا استعمال انتخابی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی تھا۔ چیف سیکریٹری کا موقف تھا کہ وزرا یہ گاڑیاں آزاد کشمیر میں استعمال نہیں کرسکتے اورآخر کار ان کا یہ فیصلہ صادر رہا۔ شاید کوئی ردعمل اس لئے سامنے نہیں آیا کیونکہ وزرا انہیں خوب جانتے تھے۔ 2015ء میں گلگت و بلتستان کے انتخابات کے دوران ان کا تجربہ اچھا نہیں رہا۔ سکندر سلطان راجا اس وقت وہاں چیف سیکریٹری تھے۔

اس وقت آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان سے متعلق وزیر برجیس طاہر چاہتے تھے عام جلسوں میں چیف سیکریٹری ان کے ساتھ رہیں لیکن سکندر سلطان راجا نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ جب کشیدگی بڑھی تو انہوں نے آزاد کشمیر سے اپنے تبادلے کی درخواست کی جو حکومت نے بخوشی قبول کرلی۔ سکندر سلطان راجا اس وقت چیف الیکشن کمشنر ہیں۔ ان کی آزمائش کا لمحہ پھر سے آگیا۔

جو لوگ ان سے واقف ہیں ان کی دیانتداری سے بخوبی واقف ہیں۔ سیکریٹری پٹرولیم کی حیثیت سے ان کے اپنے انچارج وزیر شاہد خاقان عباسی سے تعلقات بھی خوشگوار نہیں رہے۔ آخر کار انہیں او ایس ڈی بنادیا گیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے ن لیگ کےساتھ مسائل تھے بلکہ نقاد تو انہیں ن لیگ کا آدمی ہی بتاتے ہیں۔

آزاد کشمیر میں 2016ء کے عام انتخابات کے موقع پر پی ٹی آئی کے شکست خوردہ امیدوار بیرسٹر سلطان نے انہیں ن لیگ کا آدمی قرار دیا تھا۔

چیف الیکشن کمشنر کا چارج سنبھالنے کے بعد انہوں نے سرخیوں کا حصہ بننے کی کوشش کئے بغیر جب ضرورت پڑی دو ٹوک موقف اختیار کیا۔ ایک موقع پر یہ تجویز آئی کہ وہ 2018س کے انتخابات میں دھاندلی کے اپوزیشن کے الزام کی تردیدجاری کریں لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا کہ انہوں نے جو انتخابات کرائے ہی نہیں، اس کےبارے میں کیسے رائے دے سکتے ہیں۔

خفیہ بیلٹ کے معاملے میں بھی انہوں نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ خفیہ بیلٹ کو ترک کردینا آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ پھر ایک تجویز یہ آئی کہ ضمنی انتخابات سینیٹ الیکشن سے پہلے کرائے جائیں لیکن انہوں نے چال میں آنے سے انکار کردیا۔

این اے 75 سے پولنگ عملے کے اغواء کے بارے میں الیکشن کمیشن نے ان کی قیادت میں بے نظیرردعمل کا اظہار کیا۔ جاری پریس ریلیز میں حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی شدید مذمت کی گئی۔ معلومات کے مطابق اغواء کاروں کا تعلق پولیس کی اسپیشل برانچ نے نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن کے ردعمل سے ظاہر ہوتاہے کہ اب وہ کوئی بے اثر ادارہ نہیں رہا۔

الیکشن حکام اس معاملے کو کس طرح نمٹاتے ہیں یہ دیکھنا ہوگا۔ آج منگل کو الیکشن کمیشن کا اجلاس بڑا اہم ہے جبکہ اپوزیشن نے این اے 75 میں تازہ ازسرنو انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔

جن پولنگ اسٹیشنوں سےعملے کو اغواء کیا گیا وہاں ری الیکشن ہوسکتے ہیں جبکہ مقامی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کی تحقیقات کا بھی حکم دی جاسکتا ہے۔ آئندہ دنوں میں کیا کچھ سامنے آنے والا ہے یہ بھی نہایت اہم ہے۔

یہ بات آئندہ انتخابات اور جمہوریت کے لئے الیکشن کمیشن کا لائحہ عمل طے کردے گی۔ جو لوگ سکندر سلطان راجا کو جانتے ہیں وہ انہیں ایک اصولی شخص بتاتے ہیں۔ وہ بہت سے لوگوں کے لئے امید کی کرن ہیں۔ جب اکثر ادارہ جاتی سربراہان حالات پر سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔

تازہ ترین