19 فروری کو ہونے والے قومی وصوبائی اسمبلیوں کے چار حلقوں کےضمنی انتخابات سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کے لیے بھی ایک آزمائش تھے ۔ کمیشن نے تحقیقات کے بعد حلقہ این اے 75ڈسکہ کے حوالے سے پیدا شدہ دھاندلی یا شفافیت کا مسئلہ حل کرتے ہوئے حقائق سے پردہ اُٹھایا ہے اور 18مارچ کو پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کرانے کا حکم دیا ہے۔ ساتھ ہی دھاندلی کی شکایات پر علاقائی ڈی سی، ڈی پی او اور ایس ڈی پی او کو معطل، کمشنر اور آر پی او کو عہدوں سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو 4مارچ کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا گیا ہے۔ اس قدر دلیرانہ اور غیرمعمولی فیصلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دھاندلی کے الزام کی کوئی بنیاد موجود تھی۔ دوسری طرف وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے لیے کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم نے اپیل دائر کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اگر معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے فیصلے پر اپنی جماعت کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا ہے تو دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں متذکرہ کارروائی کو صائب قرار دے رہی ہیں۔ سماجی حلقوں نے اسے الیکشن کمیشن کی ساکھ بحال کرنے کی طرف ایک قدم قرار دیا ہے۔بحیثیت مجموعی اس ساری صورتحال کے تناظر میں فریقین کی طرف سے ایک دوسرے پر الزامات اور لفظی جنگ میں شدت آتی دکھائی دے رہی ہے۔ اگرچہ عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے ڈسکہ کا واقعہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن الیکشن کمیشن کا متذکرہ فیصلہ غیرمعمولی ہےجو 2023 کے عام انتخابات کے تناظر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے اور یقیناً ماضی میں پیش آنے والے تلخ حالات وواقعات کی حوصلہ شکنی کا باعث بنے گا۔ البتہ ڈسکہ الیکشن اس لحاظ سے ماضی کے مقابلے میں ایک قدم آگے دکھائی دیتا ہے کہ ایک ہی حلقے میں بیک وقت 23پولنگ اسٹیشنوں کے پریزائیڈنگ افسران ووٹوں کے تھیلوں سمیت لاپتہ رہے ۔ اس حوالے سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے اپنے آرڈر میں کہا ہے کہ فریقین کی طرف سے فراہم کردہ ریکارڈ، ریٹرننگ آفیسرز اور کمیشن کے مختلف ذرائع سے جمع کئے گئےریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد انتخابات پوری ایمانداری ، شفافیت ، آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوئے۔ خوف وہراس کے باعث ووٹروں کو آزادانہ رائے دینے کا حق نہیں مل سکا۔ قتل، فائرنگ ،زخمی ہونے کے واقعات اورحلقے میں امن وامان کی خراب صورتحال سے ووٹروں میں خوف وہراس پھیلا جس سے نتائج مشتبہ ہو گئے۔ اس کارروائی کی سماعت کمیشن کے چار ممبران نےکی جن میں الطاف ابراہیم قریشی، جسٹس ارشاد قیصر، نثاردرانی اور شاہ محمود جتوئی شامل تھے چیف الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس حکم نامے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ این اے 75کے ضمنی انتخاب میں چونکہ بدنظمی، لاقانونیت، ہوائی فائرنگ، دو افراد کی ہلاکت جیسے افسوسناک واقعات بھی ریکارڈ پر آئے ہیں امید واثق ہے کہ اس کا بھی نوٹس لیا جائے گا جس سے ذمہ دار افراد کا تعین ہوسکے گا۔ ووٹ قوم کی امانت ہے اور اس میں خیانت جرم ہے جس کے لیے قانون میں سزا مقرر ہے تاہم پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا جوفیصلہ کیا ہے ،وہاں بھی دھاندلی اور لاقانونیت کے الزامات ثابت ہوجاتے ہیں تو ذمہ دار افراد کسی بھی رو رعایت کے مستحق نہیں ہونے چاہئیں۔ اگر اس صورتحال کا ازالہ نہ کیا گیا تو آئندہ انتخابات میںایسے واقعات کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے ڈریں گے۔