اسلام آباد( رپورٹ : رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت کی جانب سے ’’سینیٹ کے انتخابات کے لئے کھلے عام رائے شماری کا طریقہ کار رائج کرنے‘‘ کے حوالے سے ذیلی قانون سازی سے متعلق قانونی و آئینی رائے کے حصول کیلئے دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس پر ایک، چار(چار ججوں کا اتفاق جبکہ ایک کا اختلاف) کے تناسب سے اپنی رائے/فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات آئین اور قانون کے تابع ہیں، اسلئے سینیٹ کے انتخابات آئین کے مطابق منعقد ہونگے۔
آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد کو ایماندارانہ، صاف، شفاف اور قانون کے مطابق بنائے جوکہ کرپٹ پریکٹسز سے پاک ہوں، ووٹ ہمیشہ کیلئے خفیہ نہیں رہ سکتاہے، سپریم کورٹ طے کرچکا ہے کہ ووٹ کی سیکریسی مطلق یا قطعی نہیں ہوتی اور نہ اس پر آئیڈیل حوالے سے عمل کیا جاسکتا ہے۔
الیکشن کمیشن انتخابی عمل میں بدعنوانی کے سدباب کیلئے دستیاب وسائل سمیت ہر قسم کی جدیدٹیکنالوجی کا بھی استعمال کر سکتا ہے جبکہ آئین کے مطابق تمام وفاقی اور صوبائی حکام الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں انکی معاونت کے پابند ہیں، ترامیم کرانا پارلیمنٹ کا کام ہے۔
الیکشن کمیشن کے اختیارات کوئی کم نہیں کرسکتا۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم ،جسٹس عمر عطا بندیال ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے سوموار کے روز کھلی عدالت میں 8صفحات پر مشتمل رائے /فیصلہ جاری کیا۔ فاضل چیف جسٹس نے فیصلہ پڑھ کرسنایا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا ،جسکے مطابق صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 186کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان (ایڈوائزری دائرہ اختیار) کے تحت رائے لینے کیلئے یہ ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیجا ہے جس میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ آیا کہ آئین کے آرٹیکل 226کے تحت خفیہ بیلٹ کی شرط صرف آئین کے ما تحت منعقد ہونے والے انتخابات پر ہی لاگو ہوتی ہے یا نہیں؟
جیسے صدر مملکت ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکرز کے انتخابات کا انعقاد؟ لیکن دیگر انتخابات پر نہیں لاگو ہوتی، جیسے سینیٹ کے انتخابات، الیکشن ایکٹ 2017 جسے آئین کے آرٹیکل 222کے،انٹری 41پارٹ 1شیڈول 4کیساتھ ملا کر پڑھا جائیگا، جوکہ خفیہ یا کھلے عام منعقد ہوسکتے ہیں۔
عدالت نے قرار دیاہے کہ ہم نے اٹارنی جنرل، چاروں صوبائی اور اسلام آباد کے ایڈوکیٹ جنرل ،قومی اسمبلی، سینیٹ،الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتوں، پاکستان بار کونسل، سندھ بار ایسوسی ایشن اور انفرادی طور پر ذاتی حیثیت میں پیش ہونیوالے بعض درخواست گزاروں کا موقف سنا ہے۔ تفصیلی رائے بعد میں دی جائیگی۔
تاہم ریفرنس کا جواب یہ ہے کہ(1)سینیٹ کا الیکشن آئین اور قانون کے ماتحت منعقد ہوتا ہے۔
(2)جیسا کہ سپریم کورٹ 2012میں ورکرز پارٹی بنام وفاق کے مقدمہ میں قرار دے چکی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 218(3)کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد کو ایماندارانہ، صاف، شفاف اور قانون کے مطابق بنائے جو کہ کرپٹ پریکٹسز سے پاک ہوں۔
(3)آئین الیکشن کمیشن سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ آرٹیکل 222کے تحت انتخابات میں بدعنوانی اور کسی بھی قسم کے جرائم سے متعلق تمام تر ضروری اقدامات اٹھائے، اگرچہ آئین پارلیمنٹ کو کرپٹ پریکٹسز اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے سے متعلق قانون سازی کا اختیار دیتا ہے لیکن آئین کے پارٹ 8 کے چیپٹر 1کے تحت کوئی بھی قانون الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن کے اختیارات پر اثر انداز یا الیکشن کمیشن کو حاصل اختیارات میں کمی نہیں کرسکتا ہے۔
(4)آئین کے آرٹیکل 218(3)کے تحت تمام وفاقی اور صوبائی حکام الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں انکی معاونت کے پابند ہیں۔
(5)جہاں تک ووٹ کی سیکریسی کا تعلق ہے اس حوالے سے 1967میں سپریم کورٹ کا ایک پانچ رکنی لارجر بنچ نیاز احمد بنام عزیز الدین کے مقدمہ میں طے کرچکاہے کہ ووٹ کی سیکریسی کبھی بھی مطلق یا قطعی نہیں ہوتی ہے اور ووٹ کی سیکریسی پر آئیڈیل یا قطعی حوالے سے عملدرآمد نہیں کیا جاسکتا ہے۔
(6)آئین کا آرٹیکل 218(3)(جسے آرٹیکل 220 اور آئین اور قانو ن کی دیگر پرویژنز کیساتھ ملا کر پڑھا جائیگا )کے تحت، الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کو ایماندارانہ، صاف ،شفاف اور قانون کے مطابق اور کرپٹ پریکٹسز کو روکنے جیسے مقد س مقاصدکے حصول کیلئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سمیت تمام تر دستیاب اقدامات کر سکتا ہے۔