• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگرمیرا اس سسٹم پر تھوڑا سا بھی اعتماد باقی رہ گیا تھا ، تو سینیٹ کے انتخاب کے بدبو دار عمل نے اسے بھی ختم کر دیا ہے۔ اگر ملک میں جمہوریت کا نظام آگے بڑھاناہے تواس کیلئے بہت سے دور رس اقدامات کرنے ہوں گے۔

اب یہ کوئی راز کی بات نہیں رہی کہ کچھ سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے جیت کیلئے ووٹوں کی خرید و فروخت جیسا گھنائونا کاروبار کیا۔ جس کے ناقابل تردید ثبوت آڈیواورویڈیو ریکارڈنگ کی شکل میں الیکشن کمیشن کو دے دیے گئے ہیں تاکہ فوری اقدامات کئے جائیں۔ ہونا تو یہ چاہے تھا کہ اس کی انکوائری کے نتائج موصول ہونے تک مشتبہ نشستوں پر انتخاب کا عمل روک دیا جاتا۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا اور ایک سزا یافتہ شخص الیکشن کمیشن کے سائے تلے وفاقی دارلحکومت میں ایک نشست خریدنے میں کامیاب ہوگیا ، یہ سارے نظام کے چہرے پر ایک طمانچہ ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت پرہوا جب ایک حکومت اور اس کے لیڈر اس مذموم عمل میں ملوث ہونے کے امکان کے بارے میں مختلف فورمز پر شدیدتحفظات کااظہار کر رہے تھے۔ اس کے باوجود بروقت کارروائی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے ملک میں جمہوریت کی بنیادہل کر رہ گئی۔ حکومت انتخابی عمل میں شفافیت کی ضرورت کا برملا اظہار کرتی رہی ہےجس کو ممکن بنانے کیلئے اس نے سپریم کورٹ سے مدد بھی مانگی تھی تاکہ انتخابات کا عمل اوپن بیلٹ کے ذریعے کروایا جا سکے۔

عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ بیلٹ کا خفیہ ہونا مطلق نہیں ہے: ’’بیلٹ کے خفیہ ہونے کو مثالی یا مطلق معنوں میں لاگو نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ انتخابات کی عملی ضروریات کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔‘‘ اپنے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے مزید کہا کہ ’’آرٹیکل 218 (3) اور 220 کے تحت الیکشن کمیشن کو اپنے مینڈیٹ کی تکمیل کیلئے تمام مطلوبہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جن میں ٹیکنالوجی کا استعمال بھی شامل ہے تاکہ منصفانہ ، شفاف اور قانون کے مطابق انتخاب کے عمل کو یقینی بنایا جا سکے اور بدعنوانیوں کے خلاف کارروائی کی جاسکے‘‘۔لہٰذا یہ سمجھنا درست ہے کہ الیکشن کمیشن اس بات کو یقینی بنانے کیلئے مناسب اقدامات کرے گاتا کہ انتخابی عمل میں کوئی سقم نہ رہے، ایسے اقدامات میں واٹر مارکنگ یا بیلٹ پیپرز کی نمبر بندی بھی شامل ہے۔ حقیقت میں ایسے لوگ موجود تھے جو کھلے عام یہ اعلان کر رہے تھے کہ مطلوبہ تعداد نہ ہونے کے باوجود ، وہ یوسف رضا گیلانی کیلئے یہ نشست جیتیں گے اور ہوا بھی ایسے ہی۔ یقیناً اس کیلئے کچھ اضافی ووٹ قیمتاً ہی خریدے گئے ہوں گے۔

اس موضوع پر پی ٹی آئی کا مؤقف ہمیشہ واضح رہا ہے ۔یہ وہ واحد جماعت ہے جس نے 2018کے سینیٹ انتخابات کے دوران کے پی اسمبلی کے اپنے 20ممبران کو ووٹ بیچنے پرجماعت سے بے دخل کر دیا تھا، یہ عمل پھر بھی دہرایا جا سکتا ہے، لیکن اس سے ووٹوں کی خرید و فروخت کا کاروبار ختم نہیں ہوگا۔اصل میں یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے کندھوں پر آتی ہے۔ان کے سامنے شکایات موجود ہیںاور وڈیو اور آڈیو ثبوت بھی۔ انہیں اس گھناؤنے واقعہ کی تحقیقات کا آغاز کرنا چاہئے تاکہ مجرموں کی نشاندہی کی جاسکے جنہوں نے اپنے ضمیر چاندی کے چند سکوںکے عوض فروخت کئے۔ انہیں اسمبلیوں سے بے دخل کرنے سمیت سخت ترین سزا دی جانی چاہئے۔ بدعنوانی سے بھر پوران سودوں سے فائدہ اٹھانے والوں کو بھی عبرت کا نشان بنناچاہئے۔

یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اسے ایک معمولی معاملہ نہیں سمجھنا چاہئے ۔ یہ جمہوریت اور ملک میں مروج نظام پر اعتمادکے متعلق ایک سوال ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب اس بد عملی کواتنی شدت سے بے نقاب کیاگیا ہے ۔ہمارے سامنے دوہی راستے ہیں یا تو مجرموں کو پکڑیںاور سزا دیںتاکہ نظام پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو لیکن اگر ایسانہ کیا گیا تو جمہوریت اور نظام دونوں کو نقصان پہنچے گا ۔الیکشن کمیشن کی ساکھ کا بھی معاملہ ہے۔ یہ بہترین موقع ہے کہ اپنے پاس موجود وافر شواہد کا استعمال کرکے اس گھنائونے کاروبار میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے ،اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر الیکشن کمیشن کسی بھی شخص کو بدعنوانی سےمنتخب ہونے کی اجازت دیتا ہے تو اس کی اپنی ساکھ متاثرہو گی اور یہ وہ ادارہ نہیں رہے گا جس کو ملک میں منصفانہ اورشفاف انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری سونپی جاسکتی ہو۔

ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم ملک میں کس طرح کا نظام چاہتے ہیں۔ ایک ایسا نظام جس کی سربراہی بدمعاشوں اور مجرموں کے جتھوں کے ذریعہ کی جائے یا شفاف نظام جو عوام کی حقیقی منشا پر منحصر ہو؟ پہلی صورت میں ہم بربادہوں گے۔ اگر ہم مؤخر الذکر کیلئے جدوجہد کرتے ہیں تو ہمارے پاس یہ موقع ہوگا کہ ہم اس ملک کو ٹھگوں کے چنگل سے چھڑا کر راہ نجات پر گامزن کریں ،جنھوں نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطراس نظام کویرغمال بنارکھاہے۔

(صاحب تحریر وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)

تازہ ترین