• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقسیمِ ہند کے بعد سے آج تک بھارت نے پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کیا جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا کا خطہ مسلسل حالتِ جنگ اور کشیدگی سے دوچار ہے۔ پاکستان کی حکومتوں نے اس کے باوجود کہ اس کی مسلح افواج اپنے حریف کے مقابلے میں طاقت اور مہارت میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں، بھارت سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا جس کو بھارت نے پاکستان کی کمزوری سمجھا۔ اس کے برعکس بھارت نے نہ صرف پاکستان بلکہ اس خطے میں دہشت گردی کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان حالات میں بھی دنیا کے اس ملک کو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دلانے کی کوشش نہ صرف اس حوالے سے ملکوں کے منہ پر بہت بڑا طمانچہ ہوگا بلکہ مستقل اراکین میں بھارت کی شمولیت سے خطے میں امن کا توازن بگڑ جائے گا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بھی نقصان پہنچنے کا ندیشہ ہے۔ ویٹو پاور حاصل ہونے سے بھارت کی بدمعاشی میں مزید اضافہ ہوگا۔ کونسل کے ارکان میں اضافہ اسی صورت قابلِ قبول اور سود مند ثابت ہوگا جب ایشیا کے بڑے ایٹمی ملک پاکستان کو بھی شامل کیا جائے۔ بھارت نے کشمیر میں جو قہر ڈھا رکھا ہے وہ پوری دنیا کے سامنے ہے اس کی شمولیت سے بھارتی اقدام کو تحفظ حاصل ہوجائے گا جس سے حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ ایشیائی اور اسلامی ممالک اس قسم کے کسی بھی فیصلے کو قبول نہیں کریں گے۔ بھارت کی بڑی تجارتی منڈی ہونے کا تاثر درست نہیں ہے۔ سی پیک منصوبے کی تکمیل سے پاکستان اس خطے کی بڑی تجارتی منڈی کا درجہ حاصل کر لے گا۔ سلامتی کونسل میں پاکستان کی شمولیت سے سب سے بڑا فائدہ ان ملکوں کو ہوگا جو دنیا میں امن کے خواہاں ہیں، امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کو بھی اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ اگر بھارت سلامتی کونسل کا رکن بنے تو پاکستان کی شمولیت بھی اس میں بہت ضروری ہے۔

اس بات سے پوری دنیا واقف ہے کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف سازشوں کا جال قیامِ پاکستان کے بعد سے بچھا دیا تھا اور آج بھی وہ اس جال سے شکار کھیلنے میں مصروف ہے۔ کشمیر کے نامکمل ایجنڈے کے حوالے سے بھارتی پالیسی سے خطے میں مسلسل کشیدگی دکھائی دیتی ہے۔ کشمیری عوام پر اس کے ظلم و ستم پر عالمی برادری محض بیان سے آگے کچھ نہیں کر سکی، اسلامی ملکوں کا رویہ بھی اس حوالے سے افسوس ناک ہے۔ بھارت نے پاکستان میں ہر دور میں دہشت گردی اور دہشت گروں کو سپورٹ کیا، بھارت نے بلوچستان، کراچی اور کے پی میں جس انداز میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کی اس نے پاکستان کو معاشی طور پر بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مالی اور جانی طور پر جو قربانیاں دیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ بھارت کی دہشت گردی کا حال یہ ہے کہ خود اس کے اپنے ملک میں نہ تو مسلمان محفوظ ہیں اور نہ ہی سکھوں کو سکون ہے، بھارت نے اپنے ملک میں گوا، جونا گڑھ اور حیدر آباد دکن کو بھی زبردستی شامل کیا ہوا ہے۔ سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کے دور میں سری لنکا پر 70ہزار فوجیوں کی مدد سے حملہ کیا مگر اسے کامیابی نہ مل سکی، طویل عرصے تک اس نے تامل ٹائیگر زکو مالی طور پر سپورٹ کرکے سری لنکا میں گڑ بڑ جاری رکھی۔ اسی طرح بھارت نے افغانستان کو دہشت گردی کی نرسری بنایا ہوا ہے، جس کی وجہ سے اس خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں ہو پا رہا۔ اسی طرح نیپال کا کئی مرتبہ اقتصادی گھیرائو کیا۔ اس تمام صورت حال میں بھارت کے دہشت گرد ملک ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ پاکستان کے خلاف اس کی سازش آج بھی جاری ہے، اس نے اپنے دفاعی بجٹ میں جس قدر اضافہ کیا ہے اس کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کو تباہ کرنا ہے مگر یہ بات طے ہے کہ بھارت کچھ بھی کر لے پاکستان کی مسلح افواج اور عوام اس کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کا واضح ثبوت بھارتی ہوا باز ابھی نندن کے جہاز کی تباہی اور گرفتاری ہے۔ پاکستان نے اس موقع پر بھی امن اور سکون کو اہمیت دیتے ہوئے خیر سگالی کے طور پر اسے رہا کیا۔ ہماری فضائیہ نے آپریشن سوئفٹ اسٹارٹ سے وطن کا بھر پور دفاع کرتے ہوئے بھارتی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دے کر ثابت کردیا کہ ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔

آج پوری پاکستانی قوم دو سال قبل بھارت کی غیر ذمہ دارانہ فوجی مہم جوئی پر پاکستان کے منہ توڑ جواب کو بڑے فخر سے یاد کرتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق جموں و کشمیر کے طویل تنازع کے پرامن حل کیلئے پرعزم ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان ذمہ دار ریاست ہے لیکن کسی منفی کوشش کا اٹل اور بھر پور عزم کے ساتھ جواب دینے اور اپنی سرحدوں کے دفاع کے لئے مکمل طور پرتیار ہے، بھارت کی معمولی سی غلط فہمی بھی نہ صرف اس خطے بلکہ دنیا بھر کے لئے مہنگی ثابت ہو سکتی ہے۔

تازہ ترین