• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نعرے سے دھرنے تک
سیکنڈ ویمن کانفرنس میں آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ، کشور ناہید،نورالہدیٰ شاہ اور شبانہ اعظمی شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے

خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر آرٹس کونسل آف پاکستان ،کراچی کے زیر اہتمام دوروزہ’’ سیکنڈ ویمن کانفرنس ‘‘ کا انعقاد 6اور 7مارچ کو کیا گیا ۔تقریب کے آغاز سے قبل آڈیٹوریم کے باہر جشن کا سماں تھا۔ شرکاء میں جوش و جذبہ قابل دید تھا۔ خواتین کانفرنس میں مرد حضرات نے نہ صرف بھر پور شر کت کی بلکہ مرد مقررین نے خواتین کے حق میںاور ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔ سیکنڈ ویمن کانفرنس کا آغاز ڈرم سرکل اور ایکمابینڈ کی زبردست پر فارمنس سے کیا گیا ،جس کو شرکاء نے بھر پور انجوائے کیا ۔کانفرنس کے پہلے روز انڈسٹریل خواتین ورکرز کو بھی مدعو کیا گیا تھا ۔

نعرے سے دھرنے تک
سیکنڈ ویمن کانفرنس کے موقعے پر ڈرم سرکل کی پرفارمنس پیش کی جارہی ہے

افتتاحی سیشن سے صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ ،سیکرٹری پروفیسر اعجاز فاروقی ،نورالہدیٰ شاہ ،ڈاکٹر معصومہ حسن نے خطاب کیا۔ کشور ناہید نے اپنی نظم پیش کی ۔ہندوستان سے نور ظہیر اور معروف اداکارہ شبانہ اعظمی نے آئن لائن گفتگو کی ،جب کہ انیس ہارون ، ڈاکٹر ماجدہ رضوی ،ڈاکٹر عالیہ امام اور دیگر معروف خواتین بھی موجود تھیں ۔

کمپیئرنگ ڈاکٹر ہمامیر نے کی ۔سیکنڈ ویمن کانفرنس میں آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کی عورت بہت خود مختار ہو چکی ہے ۔یہ خودمختاری ہی ہے کہ وہ آج ہاتھوں میں بینرز اُٹھائے اپنا حق مانگ رہی ہیں ،اس کے لئے آواز بلند کررہی ہے ۔اور اس خود مختاری کو حاصل کرنے کے لیے صدیوں عورتوں نے تحریکیں چلا ئیں۔

عورتوں نے پہلی جنگ عظیم سے پہلے ہی آزادی کے لیے آواز اُٹھا ئی تھی اور یہ جنگ آج بھی جاری ہے ،بھوک کے خلاف ،افلاس کے خلا ف،بےروزگاری کے خلاف ،ظلم کے خلاف ، اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے ہمیں خواتین کےساتھ آگے بڑھنا ہوگا ۔بہتر کنبے اور معاشرے کے قیام کے لیے مرد وخواتین کو شانہ بشانہ چلنا ہوگا ،بدقسمتی سے ترقی پزید ممالک میں حالات زیادہ خراب ہیں ۔لہٰذا ہمیں نعرے بازی سے آگے نکل کر بات چیت کے ذریعے مسائل کاحل نکالنا ہوگا ۔

نعرے سے دھرنے تک
سماجی کارکن، شیما کرمانی رقص کرتے ہوئے

لیکن آج کی عورت کو سلام ہے، جس نے اپنی جدوجہد ترک نہیں کی۔بلکہ پوری بہادری کے ساتھ ظلم کے خلا ف لڑتی رہی اور آج بھی لڑ رہی ہے ۔ اس موقع پر ہندوستان سے نور ظہیر نے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے اپنی خیالا ت کا اظہار کیا کہ آج کی عورت کسی سے پیچھے نہیں ،آج ہمارے ملک میں جتنے دھرنے ہورہے ہیں ان میں خواتین کا کردار بہت اہم ہے ،وہ ہر دھرنے میں مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں ۔لیکن ابھی بھی ہمارے ملک میں خواتین کو بنیادی حقوق نہیں ملے ہیں ۔

اب خواتین کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہےکہ وہ اپنے حق کے لیےآواز اُٹھا تی رہیں اوردھرنے دیتی رہیں ۔نور الہدیٰ شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ گزشتہ برس خواتین نے اپنے حقوق کے لیےالگ انداز سے آواز اُٹھا ئی ،عورت کے عالمی دن کے موقعے پرلگایا جانے والا نعرہ ،’’ میرا جسم میری مرضی ‘‘پاکستان کے لیے غیرت کا معاملہ بن گیا ہے۔

اس نعرے کو پاکستان میں جو معنی دئیے گئے وہ بہت تکلیف دہ ہیں۔ مجھے اس عمر میںاس نعرے نے اورمعاشرے کے ماحول نے قائل کردیا ۔گو میں کسی بھی فیمینسٹ موومنٹ کا حصہ نہیں رہی ،کیوں کہ میں ایک رائٹر ہوں لیکن اس نعرے پر ہونے والی تنقید نےمجھے فیمینسٹ بنادیا ۔ 

ایک ایسی فیمینسٹ جو اپنی آنے والی بیٹیوں اور نسلوں کے لیے ڈٹ کر کھڑی ہو جائے ۔ جب کوئی نعرہ دنیا بھرمیں گردش کرتا ہوا جہاں جہاں پہنچتا ہے وہاں اس کے معنی ،اس کے معاشرے کے مطابق ہو جاتے ہیں ۔یہ معاشرہ جہاں بچے ،بچیاں اور عورتیں راہ چلتے اُٹھا لی جائیں اور ریپ کردی جائیں ۔ تو وہاں یہ نعرہ کیوں نہ لگایا جائے ؟جب حقوق کے خلاف غلط فہمی پیدا کردی جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے،اس معاشرے کا تکلیف دہ اورسب سے بڑا سوال اٹھانے والا کردار بھائی کا ہے ۔آج اس معاشرے میںبھائی ،بہن کا قاتل بن چکا ہے،اس پر دندناتا ہوا فخر کےساتھ چلتا ہے۔

جس معاشرے میں عورت کے لیے غلط فیصلے ہوں وہ کیوں نہ کہے ”میرا جسم میری مرضی“۔جو سڑکوں سے گزرے ،گلیوں سے گزرے ،کم عمری میں گزرے اور جوان ہو جائے ۔مرد اس کے ساتھ جو چاہے وہ کرلے اور ہم عورتیں یہ نعرہ بھی نہ لگائیں ۔سب سے بڑی چیز اپنے حقوق سے آگاہ ہونا ہے،خواتین کو یہ پتا ہونا چا ہیے کہ ہمارا مذہب اور قانون ہمیں کیا حق دیتا ہے اور معاشرے میں میرا کیا حق ہونا چاہیے۔ 

آپ اپنے حقوق کی خبر رکھتی ہوں گی تو ہی آپ ظلم کے خلاف آواز اٹھا سکتی ہیںاپنے حقوق کی خبر رکھنا عورت کے لیے بہت ضروری ہے۔اگر آپ کو اپنے حقوق کا علم ہو گا تو ہی آپ نا حق بات پر انکار کر سکتی ہیں ،اگر نہیں ہوگا تو پھر آپ کے گلوں میں غیرت اور عزت کا کانٹوں بھرا ہار ڈال کر آپ کو مجبور کیا جائے گا اور آپ کو یہ پتا بھی نہیں ہو گا کہ آپ کے ساتھ غلط ہو رہا ہے۔ 

ڈاکٹر معصومہ حسن نے اپنےخطاب میں کہا کہ، 8 مارچ خواتین کے عالمی دن کی ابتدا امریکا کی خواتین سے شروع ہوئی، یہ ایک سیلیبریشن کا دن ہے ۔اس کا مقصد عورتوں کی کامیابی کو سیلبریٹ کرنا ہے، میں ان بہادر عورتوں کو سلام پیش کرتی ہوں، جنہوں نے تاریخ کے ہر دور میں جدوجہد کی، ان ہی عورتوں کی جدوجہد سے آج ہمیں حقوق ملے، جن ممالک کی سربراہ خواتین ہیں ان ممالک نے کورونا کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، عورتیں اس وبا سے نمٹنے کے لیے صف اول میں تھیں،کورونا کی عالمی وبا نے ایک سال میں ہم سے بہت کچھ چھین لیا،اس وبا کے دوران لاک ڈائون میں عورتوں نے ہر جگہ ہمت اور استقلال کا مظاہرہ کیا۔ ہندوستان کی معروف اداکارہ شبانہ اعظمی نے ویڈیو پیغام کے ذریعےسیکنڈ ویمن کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی۔پہلے سیشن کے اختتام پر معروف ادیبہ کشور ناہید نے اپنی نظم ”ہم گناہ گار عورتیں“ پڑھ کر سنائی ۔

افتتاحی تقریب کے بعد سیکنڈ ویمن کانفرنس کے پہلے سیشن ”میری زندگی میرا اختیار“ کے موضوع پر گفتگو کی گئی ،جس میں مہناز رحمن، ملکہ خان ،شیما کرمانی، شہناز راہو، ہانی بلوچ نے حصہ لیا، جب کہ نظامت کے فرائض عظمیٰ الکریم نے انجام دیئے۔دوسرا سیشن ”اکنامک امپاورمنٹ آف وومن“ کے نام سے منعقد ہوا ،جس میں کاظم سعید نے سیرحاصل گفتگو کی اور خواتین کی معاشی خودمختاری کے بارے میں آگاہ کیا، سیشن کی نظامت حوری نورانی نے کی۔اس موقع پر خواتین کی مختلف پرفارمنس کا اہتمام بھی کیاگیا ،جس میں، مریم سید نے فہمیدہ ریاض کی شاعری پر رقص کیا اور کیف غزنوی نے رقص ”کجرالی“پیش کیا۔

سیکنڈ ویمن کانفرنس کے دوسرے روز کےپہلے سیشن ”ہم کسی سے کم نہیں “ میں محنت کش خواتین کی کاوشوں کو سراہا گیا ، اجلاس کی صدارت معروف ادیبہ و شاعرہ کشور ناہید نے کی۔ جب کہ زہرہ اکبر خان، ناصر منصور، فاطمہ ماجد، بشریٰ آرائیں، سعیدہ خاتون، فرحت پروین اورسبھاگی بھیل نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، اس موقع پر سیکریٹری لیبر رفیق سولنگی نے کہاکہ آج کی خواتین بہت بہادر اور ہمارے لیے رول ماڈل ہیں ۔میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں، اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ میں نے جب بھی یونین لیڈرز سے مشاورت مانگی تومجھے بھرپور سپورٹ ملی، سندھ وہ واحد صوبہ ہے ،جس نے مزدور خواتین کے لیے سولہ سالہ پالیسیاں بنائیں، خوشی کی بات ہے کہ ان تمام خواتین نے اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کی اور مجھے اُمید ہے کہ آئندہ بھی کامیابی کا سفر تیزی سے جاری رہے گا۔ 

شیما کرمانی نے اپنے خطاب میں کہاکہ عورتیں جب بھی روزگار کی تلاش میں نکلتی ہیں تو انہیں ہر گلی ہر نکڑ پر مردوں کی تشدد زدہ ہراس کرتی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔آج کی عورتوں میں جو خوداعتمادی نظر آتی ہے وہ چالیس سال پہلے نہیں تھی، مگر آج بھی اگر عورت ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوجائے تو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک طاقت بن کر اُبھر سکتی ہے اسی وجہ سے ہم نے عورت مارچ شروع کی، ہمیں اپنے حق کے لیے مل کر آواز اٹھانی ہوگی، سوشل ورکر حقوقِ نسواں زہرا اکبر خان نے کہاکہ آج حالات ماضی کے مقابلے میں بہتر ہیں لیکن آج بھی عورتوں کی لڑائی ان کے گھر سے شروع ہوتی ہے،ہمیں مردوں کو ہم خیال بنانا ہوگا، سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف ہمیں مل کر لڑنا ہوگا، بیس پچیس سالوں میں خواتین نے لڑ کر اپنے حقوق حاصل کیے ہیں اورآج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ 

خواتین نے جس طرح آگے بڑھ کر اپنے حقوق کی جنگ لڑی ہے میں ان خواتین کو سلام پیش کرتی ہوں۔ ’’عورت پر تشدد کیوں ‘‘ کے عنوان پر سماجی رہنما انیس ہارون نے اپنے خیالا ت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی طور پر ہمیں اپنے رویوں کو بدلنا ہوگا، قوانین پر عمل ضروری ہے، ہمیں اپنا تعلیمی نظام اور خواتین میں آگاہی کا طریقہ کار تبدیل کرنا ہوگا، تاکہ ایک عورت اپنے حقوق کو پہچان سکے، انہوں نے کہاکہ ضروری نہیں کہ شیلٹر ہوم جانے والی لڑکی نے کچھ کیا ہو ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ آخر وہ کون سے حالات ہیں ،جس نے اُس لڑکی کو یہاں آنے پر مجبور کیا، ہمیں ایسی خواتین کی مدد کے لیے آگے آنا چاہیے،عبدالخالق شیخ نے کہاکہ گھریلو تشدد کو اکثر خاندانی مسئلہ سمجھا جاتا ہے ایسا نہیں ہے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا ،ہمارے پاس قوانین موجود ہیں البتہ عمل درآمد مسئلہ رہا ہے ۔

نورالنساء چنا نے کہاکہ آج کی عورت بالکل بھی کمزور نہیں ہے، جس میں تعلیم یافتہ خواتین اپنی مثال آپ ہیں، ہمیں گھریلو تشدد کے حوالے سے 2013میں بنائے گئے قانون کو عام کرنا ہوگا ،تاکہ خواتین اس کی بنیاد پر اپنی آواز اُٹھا سکیں۔کانفرنس میں خواتین نےعالمی مشاعرہ بھی پیش کیا،جس میں کشور ناہید، عذراعباس، شاہدہ حسن (کینیڈا)، یاسمین حمید (لاہور) فاطمہ حسن، تنویر انجم، نسیم سید(کینیڈا) عشرت آفرین (امریکا) ریحانہ روحی، حمیرا رحمٰن (امریکا) نصرت مہدی (انڈیا) حمیدہ شاہین (لاہور) عطیہ داود ، ناصرہ زبیری ودیگر شعراءشامل تھیں۔ نظامت کے فرائض عنبرین حسیب عنبر نے انجام دیے۔آخر میں شیما کرمانی نے رقص کیا اور حاضرین سے خوب داد وصول کی ۔ نفرنس کے اختتام پر تھیٹر ’’ دستک ‘‘نے کانفرنس میں چار چاند لگا دئیے ،جس کو شر کاء نے بہت پسند بھی کیا۔

تازہ ترین