واشنگٹن : دیمیتری سیواستوپاؤلو
ذرائع کے مطابق جو بائیڈن کے صدارت کا سنبھالنے کے بعد حریف طاقتوں امریکا اور چین کے مابین پہلے اعلیٰ سطح کے اجلاس کیلئے راہ ہموار کی جارہی ہے۔
ان مذاکرات کے نتیجے میں وزیرخارجہ انٹونی بلنکن اور امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سیلوان اپنے چینی ہم منصبوں سے ملاقات کرسکتے ہیں۔
دو افراد کے مطابق الاسکا میں چینی وزیرخارجہ وانگ یی اور چینی وزارت خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار یانگ جیچی کے ساتھ انتونی بلنکن اور جیک سیلوان کی بات چیت میں ایک آپشن شامل ہوگا۔
امریکی ریاست کو ایک ممکنہ مقام سمجھا جارہا ہے کیونکہ انٹونی بلنکن اپنے آئندہ جاپان اور جنوبی کوریا کے دوروں سے واپسی پربراستہ اینکرج واشنگٹن آسکتے ہیں۔امریکا ان آپشنز پر بھی غور کررہا ہے کہ مذکورہ دو عہدیداروں میں سے صرف ایک اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات میں شامل ہوگا۔
صورتحال سے واقف ایک شخص نے اس بات پر زور دیا کہ بات چیت جاری ہے تاہم وقت اور مقام کے تعین کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
جو بائیڈن کی جانب سے چین کےبارے میں سخت مؤقف اپنانے اوراشارہ دینے کہ وہ بدسلوکیوں کے احتساب کیلئے اسے پکڑیں گے، کے بعد سے کوئی بھی ملاقات ایک اہم پیش رفت ہوگی۔اس میں سنکیانگ میں مسلم ایغور پر چین کا جبر،جسے امریکا نے نسل کشی کہا ہے، ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز تحریک کے خلاف کریک ڈاؤن اور تائیوان کے خلاف سخت اقدامات شامل ہوں گے۔
جو بائیڈن نے چین کے صدر شی جنگ پنگ کے ساتھ اپنی پہلی فون کال میں ان امور کو اٹھایا، اگرچہ یانگ جیچی نے امریکا کو خبردار کیا تھا کہ اپنی حد کو عبور نہ کرے۔
جیک سیلوان نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکا کسی بھی قابل مذمت رویے پر قیمت عائد کرے گا۔ یانگ جیچی سے اپنی پہلی ملاقات میں انٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکا چین کواس کے بین الاقوامی نظام کی بدعنوانی کا ذمہ دار قرار دے گا۔
اگر جیک سیلوان اور انٹونی بلنکن کی جیچی یانگ اور وانگ یی سے ملاقات کرتے ہیں تو یہ پہلا موقع ہوگا جب امریکی وزیرخارجہ اور قومی سلامتی کےمشیر چینی عہدیداروں کے ساتھ مشترکہ طور پر ملاقات کریں گے۔وائٹ ہاؤس اور محکمہ خارجہ نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے سب سے پہلے ان مذاکرات کی اطلاع دی ہے۔
چین کے ساتھ ملاقات کو قبول کرنے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب جو بائیڈن جمعہ کے روز چتربج ( چار ملکی سیکیورٹی ڈائیلاگ) کے دیگر ممالک جاپان، بھارت اور آسٹریلیا کے ساتھ ایک اجلاس طلب کیا ہے۔چاروں قومیں بیجنگ مخالف محاذ پیدا کیے بغیر چین کا مقابلہ کرنے کیلئے مل کر کام کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
انٹونی بلنکن اور وزیردفاع لائیڈ آسٹن آئندہ ہفتے جاپان اور جنوبی کوریا کے دورے کی تیاری کررہے ہیں۔ لائیڈ آسٹن بھارت کا دورہ بھی کریں گے۔
اس صورتحال سے واقف دو افراد کا کہنا تھا کہ امریکا اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ وہ چین کو مکمل طور پر نظرانداز نہیں کررہا ہے جبکہ اس نے اتحادیوں سے چین کے بارے میں مزید محاذ آرائی کےمؤ قف کے اظہار کے لئے امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اپیل کی ہے۔
وانگ یی نے کہا ہے کہ چین بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کے لئے رضامند ہے، لیکن امریکا سے اسی سمت آگے بڑھنے اور دو طرفہ تعاون کیلئے اپنی تمام غیر معقول پابندیوں کے خاتمے پر زور دیا۔
بیجنگ میں مرکز برائے چین اور عالمگیریت ٹھنک ٹینک کے سدر وانگ ہواؤ نے کہا کہ یہ اجلاس ایک طویل سفر کی جانب پہلا قدم ہوگا، جیسا کہ چین موسمیاتی تبدیلیوں جیسے ممکنہ تعاون کے شعبوں کی حمایت میں انسانی حقوق سے متعلق تنازعات کو ملتوی کرنے کے لئے امریکا کو قائل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین یہ تسلیم کرچکا ہے کہ امریکا ازخود سمجھتا ہے کہ اس کا چین کے ساتھ مقابلہ ہے۔اس بار چین اس کو چکما دینے کی کوشش نہیں کررہا ہے۔
تاہم امریکی حکام نے کہا ہے کہ وہ تنقید پر زور کم نہیں کریں گے۔ امریکا اس پر غور کررہا ہے کہ چین کے اس ہفتے بڑے پیمانے پر انتخابی قانون منظور کرنے کے منصوبوں کا کیا جواب دیا جائے جو ہانگ کانگ میں زیادہ سے زیادہ جمہوریت کی امیدوں کو مؤثر انداز میں کچل دے گا۔
امریکی انڈو پیسیفک کی کمان کے سربراہ ایڈمرل فلپ ڈیوڈسن نے کہا ہے کہ امریکا اپنی فوجی برتری کھو رہا ہے کیونکہ چین تیزی سے فوجی توسیع کے ساتھ ایشیاء میں کئی دہائیوں سے قائم امریکی قیادت میں رکاوٹوں کا خاتمہ کررہا ہے۔
فلپ ڈیوڈسن نے سینیٹ کے مسلح خدمات کے پینل کو بتایا کہ ہم خطرے میں اضافہ کررہے ہیں،اس سے پہلے کہ ہماری طاقتیں مؤثر ردعمل دینے میں کامیاب ہوں چین کو یکطرفہ طور پر صورتحال کو تبدیل کرنے کیلئے حوصلہ افزائی کرسکتا ہے۔