اسلام آباد (انصار عباسی) حکومتی وزراء کی جانب سے پیر کے روز کی جانے والی پریس کانفرنس اور اس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پورے ادارے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنا؛ الیکشن کمیشن کی ڈسکہ الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات کیخلاف پیشگی اقدام تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس معلومات ہے کہ ڈسکہ الیکشن کے دھاندلی کیس میں الیکشن کمیشن نے دھاندلی کے مبینہ منصوبے کے متعلق اہم شواہد حاصل کر لیے ہیں، اگر یہ شواہد مزید ٹھوس ہوگئے اور انہیں عوام کے روبرو پیش کر دیا گیا یا پھر سپریم کورٹ میں پیش کر دیا گیا تو یہ حکومت کیلئے باعث ہزیمت صورتحال ہو جائے گی۔
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کو بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے بِیس ’’گمشدہ‘‘ پریزائڈنگ افسران کی ڈسکہ سے باہر ایک مخصوص مقام پر موجودگی کے حوالے سے سائنسی شواہد حاصل کر لیے ہیں۔ ووٹنگ اور گنتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد یہ پریزائڈنگ افسران، ریٹرننگ افسر کے پاس اپنی حاضری کو یقینی بنانے کی بجائے کئی گھنٹوں کیلئے غائب ہوگئے تھے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حکومت سے رابطہ کرکے ان بیس پریزائڈنگ افسران کے فون کالز کا ڈیٹا ریکارڈ (سی ڈی آر) مانگ لیا تھا، یہ لوگ ڈسکہ میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے دوران اپنی مرضی سے کئی گھنٹوں کیلئے ووٹوں سے بھرے تھیلوں کے ہمراہ غائب ہوگئے تھے۔
الیکشن کمیشن نے اس الیکشن کو کالعدم قرار دیدیا تھا۔ الیکشن کمیشن کو فراہم کردہ معلومات میں ادارے کو بتایا گیا تھا کہ ان پریزائڈنگ افسران کی اکثریت ڈسکہ سے باہر ایک مقام پر جمع تھی۔ حکومت پہلے ہی کمیشن کو مطلوبہ معلومات فراہم کرنے کے معاملے میں پریشان تھی کیونکہ سی ڈی آر تفصیلات سے اُن لوگوں کو بے نقاب کیا جا سکتا تھا جنہوں نے ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں دھاندلی کا منصوبہ بنایا تھا۔
یہ پریزائڈنگ افسران کئی گھنٹوں تک غائب رہے اور ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن سمیت کوئی ان کا سراغ نہ لگا سکا۔ الیکشن کمیشن نے پولیس اور سویلین انتظامیہ کے متعلقہ عہدیداروں سے رابطے کی کوشش کی تھی لیکن کوئی دستیاب نہیں تھا۔
کمیشن نے اپنی پریس ریلیز میں بتایا تھا کہ صرف چیف سیکریٹری پنجاب سے رات تین بجے ایک مرتبہ رابطہ ہوا تھا لیکن وہ بھی کمیشن کو گمشدہ پریزائڈنگ افسران کی معلومات فراہم نہ کر سکے۔
آئی جی پولیس پنجاب، کمشنر اور آر پی او گجرانوالہ، متعلقہ ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او سے بھی کمیشن نے رابطہ کیا لیکن یہ بھی دستیاب نہیں تھے۔ الیکشن کمیشن نے ڈسکہ کے الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے چیف سیکریٹری، آئی جی پولیس کو چار مارچ کو طلب کیا تھا اور ساتھ ہی کمشنر اور آر پی او گجرانوالہ کو ہٹانے جبکہ متعلقہ ڈپٹی کمشنر، ڈی پی او، دو اسسٹنٹ کمشنر اور دو ڈی ایس پیز کو معطل کرنے کا حکم دیا تھا۔
کمیشن کو ابھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اِن سویلین انتظامیہ کے عہدیداروں اور پولیس افسران کیخلاف انکوائری کمیشن کود کرے گا یا ان کا معاملہ وفاقی اور پنجاب حکومت کو تحقیقات کیلئے بھیجے گا۔ اگر ای سی پی نے ان افسران کیخلاف خود انکوائری کا فیصلہ کیا تو یہ صورتحال اُن لوگوں کیلئے باعثِ پریشانی ہوگی جنہوں نے ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں دھاندلی کی منصوبہ بنایا اور اس پر پس پردہ رہتے ہوئے عمل بھی کیا۔
موجودہ الیکشن کمیشن کو وزیراعظم کی خواہش اور منظوری کے ساتھ مقرر کیا گیا تھا، اور وہ بھی کمیشن پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ تاہم، حکومت کو کمیشن سے اس وقت پریشانی ہونا شروع ہوگئی جب کمیشن نے سینیٹ الیکشن میں خفیہ رائے شماری کے حوالے سے صدارتی ریفرنس کی توثیق کرنے کی بجائے سپریم کورٹ میں آئین اور قانون میں وضع کردہ خفیہ ر ائے شماری کی حمایت کی تھی۔ کمیشن کی رائے تھی کہ وہ آئین اور قانون میں وضع کردہ طریقہ کار کے مطابق الیکشن کرانے کا پابند ہے۔
سینیٹ الیکشن سے قبل، حکومت نے الیکشن کمیشن سے کہا تھا کہ بیلٹ پیپر پر بارکوڈ ٹیکنالوجی استعمال کرے۔ حکومت کا کہنا تھا کہ اس ٹیکنالوجی سے الیکشن کمیشن، اگر حکومت یا عدالت پوچھے تو، ووٹر کی شناخت کر سکے گا۔
حکومت کی رائے کے مطابق، اس ٹیکنالوجی کی مدد سے سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی خریداری روکی جا سکے گی۔ لیکن کمیشن کیلئے مسئلہ یہ تھا کہ جو حکومت اس سے مطالبہ کر رہی تھی وہ آئین کے مطابق ممکن نہیں تھا۔ آرٹیکل 226 میں واضح لکھا ہے کہ ماسوائے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ، تمام الیکشن خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوں گے۔
کمیشن نے سپریم کورٹ میں اپنے بیان میں بھی یہی بات کی تھی کہ بیلٹ پیپر پر بارکوڈ لگانا آرٹیکل 226 کی خلاف ورزی ہوگا۔ حکومت سے کہا گیا تھا کہ بیلٹ پیپر پر بارکوڈ لگانے کے دو طریقے ہیں: پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کرے یا پھر سپریم کورٹ اس حوالے سے فیصلہ جاری کرے۔
یہ دونوں کام نہیں ہوئے۔ سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کی پی ٹی آئی کے امیدوار حفیظ شیخ کیخلاف کامیابی نے حکومت اور وزیراعظم کو پریشان کر دیا ہے۔ عمران خان نے ٹی وی پر نشر ہونے والے خطاب میں کمیشن پر تنقید کی اور اسے گیلانی کی کامیابی کا ذمہ دار قرار دیا۔ کمیشن نے جواباً سخت الفاظ پر مشتمل پریس ریلیز جاری کی اور کہا کہ ادارے کو آئین اور قانون کی خلاف ورزی کرنے کیلئے دبائو میں نہیں لایا جا سکتا۔