پاکستانی نژاد برطانوی نوجوان باکسر عامر خان نے امریکہ میں باکسنگ کے متعدد عالمی میچ جیت کر نہ صرف عالمی شہرت اور دولت حاصل کرلی ہے بلکہ ایک پاکستانی نژاد امریکی فریال مخدوم نامی شریک حیات بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہے گزشتہ جمعرات کو مہندی کی رسم کے ساتھ ہی ساتھ نیویارک میں سٹیٹسن آئی لینڈ کے علاقے میں ایک ہال میں دونوں کا نکاح پڑھا کر رشتہ ازدواج میں جوڑ دیا گیا اور دوسرے روز جمعہ کی شام نیویارک کے عالمی شہرت یافتہ ہوٹل کی تیسری منزل پر ایک ہال میں تقریباً 250 مدعو مہمانوں نے شادی کی ایک سادہ، باوقار، قدرے مذہبی رنگ لئے تقریب میں شرکت کی جو وقت مقررہ سے دو گھنٹے تاخیر سے شروع ہو کر تین گھنٹے میں نصف شب کو ختم ہو گئی۔ تھوڑی دیر کیلئے دولہا کے ساتھیوں نے بھنگڑا ڈالا ایک عالم دین جو دلہن کے اسلامی تعلیمات کے استاد بھی رہے ہیں انہوں نے مدلل اور نوجوانوں سمیت سب کی توجہ والا لیکچر حقوق شوہر بیوی اور باہمی احترام کے بارے میں دیا۔ غیر مسلم مہمان بھی کسی مشروب کا کوئی مطالبہ نہیں کرتے پائے گئے بلکہ اس سادہ روایتی تقریب سے خوش اور مطمئن ہوتے دیکھے گئے۔ ہوٹل کے مہنگے ہال کے علاوہ شادی کی یہ تقریب کئی لحاظ سے پاکستان میں ہونے والی بہت سی شادیوں کیلئے سادگی اور باوقار روایات کی ایک مثال بن سکتی ہے۔
نیویارک میں زندگی کے 35سالوں کے دوران پرنسس امینہ آغا خان سمیت متعدد نامور اور دولت مند شخصیات کی شادیوں میں شرکت اور مشاہدے کے مواقع ملے ہیں مگر اتنے سالوں میں دولت اور نامور شخصیات کی موجودگی میں بھی سادگی اور وقار کے ساتھ اپنی روایات کی حامل شادیاں بہت کم دیکھنے اور جاننے کو ملی ہیں۔ چند سال قبل میری لینڈ (حالیہ شکاگو) والے رشید چوہدری کی صاحبزادی کی شادی لاہور کے وکیل رانا اعجاز کے صاحبزادے سے ہوئی جس میں ہلیری کلنٹن، نائب صدر الگور متعدد سینیٹروں، کانگریس مین اور دیگر اہم امریکی شخصیات بھی شریک تھیں، سیکورٹی بھی تھی اور دلہن کے والد نے سادہ شلوار کُرتے میں ہی ان سب کا استقبال کیا۔ واشنگٹن کا یہ ہوٹل مکمل طور پر بک تھا مگر بار بند کرنے کی ہدایات کے ساتھ یہ تقریب انتہائی روایات اور سادگی کے ساتھ ان تمام امریکی اور پاکستانی مہمانوں کی موجودگی میں ہوئی امریکیوں نے بھی کسی مشروب یا شے کی کمی کا ذکر کئے بغیر شادی کے پاکستانی اور امریکی کھانوں اور ملبوسات و روایات کو خوب خوب پسند کیا اور رشید چوہدری اور ان کی صاحبزادی کے رویّے کی تعریف کی اور رات گئے تک بہت سے امریکی مہمان بیٹھے رہے۔
عامر خان کی شادی بھی ایسے ہی اچھے پہلو لئے ہوئے تھی جو ہمیں شادی میں مدعو ذمہ دار معتبر مہمانوں کی زبان سے معلوم ہوئے البتہ مشاہدہ نہ کر سکے کیونکہ عامر خان کے لواحقین باکسنگ میچ اور اس کی امریکہ موجودگی کے وقت جس پاکستانی میڈیا کو نہ صرف بار بار ای میل بھیج کر مدعو کرتے ہیں اور پاکستانی کمیونٹی کے لوگ جس طرح عامر خان کی کامیابی اور جیت کیلئے دعائیں کرتے ہیں اب عامر خان کی شادی میں اسی پاکستانی میڈیا کو دور رکھنے کیلئے سیکورٹی کے افراد کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ جواز یہ دیا گیا کہ ایک برٹش کمپنی کوشادی کی تصاویر اور وڈیو کا کنٹریکٹ دے دیا گیا ہے لہٰذا میڈیا کو نہ تو کوریج کی اجازت ہے اور نہ ہی کوئی تصویر لی جا سکتی ہے۔ اگر ایسا کوئی خصوصی کنٹریکٹ بھی موجود ہو تب بھی نامور شخصیات اپنے مداحوں کی خاطر میڈیا کو تصاویر اور ویڈیو کیلئے چند منٹ کی کوریج کی اجازت دیتی ہیں ورنہ وہ خود چند تصاویر فراہم کر دیتی ہیں لیکن عامر خان کی شادی کی تقریب میں تو نہ صرف پاکستانی میڈیا کو تیسرے فلور کے شادی ہال سے دور رکھا گیا بلکہ اگر کوئی پاکستانی صحافی گراؤنڈ فلور پر ہوٹل میں نظر آیا تو ہوٹل سیکورٹی سے شکایت کر کے وہاں سے بھی چلتا کیا گیا بلکہ نیویارک کی پاکستانی کمیونٹی کے فوٹو جرنلسٹ مسعود کمبوہ سے کیمرہ چھین کر اس کی سم ضبط کر کے اسے گرفتاری کی دھمکی دیکر نکال دیا گیا۔ ہم نے تو نیویارک میں 40سال کی موجودگی کا فائدہ اٹھایا۔
تقریب سے قبل ہی ہال اور ہوٹل کا مکمل جائزہ لے چکے تھے، مدعو مہمانوں سے بھی خوب گفتگو ہوٹل سے باہر ہی کر چکے تھے اور پھر ایک قریبی ریسٹورنٹ میں بیٹھے اپنے متعدد ”قابل اعتماد“ ذرائع سے شادی کی تقریب کا تفصیلی اور لمحہ بہ لمحہ آنکھوں دیکھا حال فون پر سنتے رہے کہ شادی کی یہ تقریب کس قدر سادہ، باوقار اور روایتی تھی۔ یہ اصول عجیب ہے کہ جب کسی کو ناموری، کامیابی اور شہرت کیلئے پاکستانیوں کی دعاؤں اور تعاون کی ضرورت ہو تو وہ کمیونٹی کا فرض کہلائے اور جب پاکستانی عوام اس کی ناموری اور شہرت پر فخر کرتے ہوئے اس میں دلچسپی لینا شروع کر دیں تو پھر وہ نامور پاکستانی اپنی زندگی کے اہم ترین واقعات و لمحات کو دوسروں کو ٹھیکے پر دیکر ڈالر بنائیں اور پاکستانی عوام سے لاتعلقی اختیار کرلیں۔ بات شادیوں کی چل رہی ہے تو امریکہ میں پیدا ہونے، پلنے اور تعلیم حاصل کر کے بعض انتہائی کامیاب پاکستانی نوجوانوں کا رویہ انتہائی قابل ستائش اور دوسروں کیلئے مثالی ہے۔ صرف دو مختصر واقعات آپ کے گوش گزار ہیں کہ اس قابل فخر رویّے سے آپ بھی مستفید ہو سکیں۔ (1) نیویارک کے ایک پاکستانی ڈاکٹر کی اعلیٰ تعلیم یافتہ صاحبزادی کی حال ہی میں شادی طے ہو رہی تھی لڑکی نے اپنے والد سے پوچھا کہ شادی کیلئے کتنا بجٹ ہے باپ نے اکلوتی بیٹی سے روایات، مہمانوں کی تواضع، ملبوسات تحائف وغیرہ کا ذکر کر کے بجٹ کی تفصیل بتائی جو غالباً ایک لاکھ ڈالر سے زائد تھی۔ بیٹی نے رسم و رواج، کار کی خریداری وغیرہ سے منہ موڑتے ہوئے تجویز دی کہ دولہا اور دلہن کے والدین اور بھائی بہن جزائر ہوائی میں جمع ہو کر خاموشی سے شادی کریں اور واپس آجائیں جو صرف چند ہزار ڈالر کا خرچ ہے۔ باقی تمام رقم فلاحی کاموں کیلئے خرچ کردی جائے۔ چنانچہ یہی ہوا جزائر ہوائی میں شادی بھی ہو چکی اور قریباً لاکھ ڈالر فلاحی تنظیموں کو بھی جا چکا ہے۔
اسی طرح مشی گن کے ایک پاکستانی ڈاکٹر کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور امریکی سیاسی نظام سے واقف صاحبزادی نے بوسٹن میں چند مہمانوں کو صرف سوڈا پلا کر نکاح اور شادی کی اور خوشحال باپ سے بقیہ رقم فلاحی کاموں کیلئے خرچ کروا دی اسی لئے مجھے تو امریکہ و کینیڈا میں رہنے والی ہماری نئی نسل سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ کاش پاکستان میں بھی ہمارے خوشحال پاکستانی نوجوان ایسے ہی رویوں کو اپنالیں تو مستقبل محفوظ ہو جائے گا۔ فی الوقت تو نئے وزیراعظم نواز شریف کی ٹیم میں خارجہ پالیسی اور پاک،امریکہ امور کے چیلنج سے نمٹنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ دو ڈرونز حملوں سے نواز حکومت کی آمد کا استقبال کوئی اچھا شگون نہیں۔ میاں صاحب کیلئے یہ اہم اور پیچیدہ چیلنج دانشمندی اور بصیرت کا طالب ہے۔