لکھنا مجھے ہے بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کے درمیان بڑھتی ہوئی لفظی تکرار پر مگر فکر مجھے کھائے جارہی ہے کہ آموں پر بور آچکا۔ ننھی ننھی امبیاں بھی شاخوں پر نظر آرہی ہیں۔ مگر ابھی تک کوئل کی کوک سنائی نہیں دی ۔فیس بک دوست کہتے ہیں۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر چیز روایت کے مطابق ہی ہو۔ جیسے ہمارا خیال ہے کہ سیاست کسی آئیڈیالوجی (نظریے) کے بغیر نہیں ہوسکتی لیکن ہورہی ہے۔ اور انارکی بڑھ رہی ہے۔ نئی نسل کے سیانے کہتے ہیں کہ اب انارکی ہی نیا نارمل ہے۔
میں تو پھر عرض کروں گا کہ میری گنہ گار آنکھیں تو یہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز جب جب ملتے، ملک کے بنیادی شعبوں تعلیم، صحت، زراعت، معیشت پر تبادلۂ خیال کرتے۔ اپنے اپنے ماہرین کی رپورٹیں ایک دوسرے کو دیتے۔ ان کے ترجمان اعلامیے جاری کرتے کہ مستقبل کے لیے یہ پالیسیاں طے کی جارہی ہیں۔ قوم کو اعتماد میں لیا جاتا کہ کورونا کی وجہ سے اور حکومت کے غلط اقدامات کے باعث معیشت کو جو نقصانات پہنچے ہیں، ان سے نمٹنے کے لیے یہ راستے اختیار کیے جائیں۔ مسلم لیگ ن اور پی پی پی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کا انعقاد کرواتیں۔ اپنی تجاویز پر اپنے ارکان سے سنجیدہ بحث کرواتیں۔ قوم ان تجاویز کے حق میں سوشل میڈیا، ٹی وی چینلوں پر اتنا اظہار یکجہتی کرتی کہ حکومت ان تجاویز کو اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتی۔
میرے دونوں طرف لگے تاریخی کتابوں کے ڈھیر میری اس سوچ پر قہقہے بلند کررہے ہیں کہ نہ تو ان لیڈروں نے ہم سے کوئی سبق حاصل کیا۔ نہ ہی کالم نگاروں نے۔ یہ اشرافیہ اس لیے تو سیاست میں نہیں آتی ہے کہ ملک کے حالات درست ہوں۔ عوام کو راحت ملے۔ اگر پاکستان مستحکم ہونے لگ گیا۔ میرٹ بالادست ہوگیا تو خاندانی بادشاہی کیسے برقرار رہ سکے گی؟ ہمیں تو تشویش ہوتی ہے کہ سیاست نظریات سے خالی ہورہی ہے۔ بڑی پارٹیوں کی کوئی آئیڈیالوجی نہیں ہے۔ آئیڈیالوجی ہی آگے بڑھنے کے اصول اور قواعد و ضوابط بناتی ہے۔ آئیڈیالوجی ہی طے کرواتی ہے کہ معاشرے میں بگاڑ کہاں کہاں کیسا کیسا ہے۔ اسے درست کرنے کے لیے کن اصولوں کو بروئے کار لایا جائے۔ مستقبل کے لیے کیسا ماحول تشکیل دیا جائے جو ایسے افراد تیار کرسکے جو عوام کے مسائل کے حل کے لیے ایک مستحکم سسٹم چلا سکیں لیکن یہ لوگ جو سب پر بھاری ہیں جو اپنے باپوں کے بیانیوں کو تاریخ اور جغرافیے کا قول فیصل سمجھتے ہیں۔ وہ ان بیانیوں کو ہی نظریاتی قرار دیتے ہیں۔
میں جب بلاول، مریم کے بیانات سنتا ہوں، ٹویٹ دیکھتا ہوں۔ عمران خان کے فرامین سنتا ہوں، مولانا فضل الرحمٰن، چوہدری شجاعت حسین کے فرمودات پڑھتا ہوں، محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کا محور و مرکز یہ خود ہی ہیں۔ ان کی باتیں ایک دوسرے کے خلاف ہی ہوتی ہیں۔ نہ تو اپنے ملک کی تعلیمی صورت حال زیر غور ہوتی ہے۔ نہ معیشت پر جامع تبصرہ۔ نہ دریاؤں میں پانی کی مقدار۔ نہ سمندر کی تہوں میں پوشیدہ معدنی وسائل۔ نہ کوئلے کی کانوں میں حفاظتی اقدامات کا فقدان۔ نہ گوادر میں مقامی باشندوں کی محرومیاں۔ نہ پہاڑوں میں رہنے والوں کے علاج معالجے کی مشکلات۔ یہ تو اپنے ملک کے سلگتے ہوئے مسائل ہیں۔ ان کا بلاول، مریم کبھی ذکر نہیں کرتے۔ افغانستان کے مخدوش حالات بھی بلاول، مریم کی صحت پر کوئی اثر نہیں ڈالتے لیکن ملک تو متاثر ہورہا ہے۔ افغانستان میں بلوے کے پی اور بلوچستان کے لوگوں کی زندگیاں تو متاثر کررہے ہیں لیکن جمہوریت کے ان دعویداروں کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ اچانک سیاسی معاہدے کیے جاتے ہیں۔ اچانک توڑ دیے جاتے ہیں۔ ان کے غلام جو کچھ دن پہلے ٹاک شوز میں ان معاہدوں کی شان میں قصیدے پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اپنی اپنی قیادت کے تدبر اور اعلیٰ ظرفی کی تعریف میں زمین آسمان ایک کررہے ہوتے ہیں۔ وہی غلام پھر ان معاہدوں کے توڑنے کو سیاسی بصیرت قرار دے رہے ہوتے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ آقا نہیں کررہے ہیں۔ اس لیے غلاموں کو بھی اس کی عادت نہیں ہے۔
آئیڈیا لوجی کے بغیر سیاست۔ نظریات کے بغیر سیاسی جماعتیں اسی قسم کی ایڈہاک حرکتیں کرتی ہیں۔ مستقبل کا کوئی لائحہ عمل نہیں دیتی ہیں۔ وہ تو یہ بھی تعین نہیں کرتی ہیں کہ ان کے نزدیک مستقبل کتنے سال تک کا ہے۔ جب کسی نظریے کے تحت زندگی گزاری جاتی ہے۔ مستقبل کا شیڈول کسی نظریے کے مطابق طے ہوتا ہے تو اس کی روشنی میں ہی پالیسیاں۔ منشور بنائے جاتے ہیں۔ ان پالیسیوں سے متعلقہ ماہرین کو پارٹی میں شامل کیا جاتا ہے۔ نوجوان کارکنوں کو اس نظریے کی روشنی میں تربیت دی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ کے ارکان کو اس نظریے کی روشنی میں مباحث کے نکات تلاش کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ جب سیاسی پارٹیاں کسی نظریے کو لے کر ملک کے مستقبل کے تصورات پیش کرتی ہیں تو میڈیا۔ یونیورسٹیاں۔ صنعتیں۔ کاروبار۔ مارکیٹ۔ اسٹاک ایکسچینج بھی اسی تناظر میں آگے بڑھنے کے پراسپیکٹس تیار کرتی ہیں۔ قوم کو ایک سمت ملتی ہے۔ اسکولوں میں پڑھنے والی نئی نسلوں کو بھی نصاب میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے بڑے ہوکر اس نظریے کو فروغ دینا ہے۔
یا حسرۃ علی العباد: مریم نواز کے لیے سارا نظریہ نواز شریف ہیں۔ بلاول کے لیے صدر آصف علی زرداری۔ باپ رے باپ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)