• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جون 2013ء کے پہلے ہفتے میں وفاق اور ملک کے چاروں صوبوں میں بننے والی نئی حکومتوں کو جو چیلنجزدرپیش ہیں، ان میں زیر گردش قرضے، بجلی کا بحران اور غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کا انتہائی کم سطح پر پہنچ جانا شامل ہیں۔یہ وہ موٹے موٹے مسائل ہیں جن کے حل کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو، محاذ آرائی کی سیاست دور دور تک نہ ہو، امن وامان کی صورتحال مثالی ہو۔اس کے ساتھ ساتھ قیادت کے اندر سنجیدگی ہو۔ پاکستان اس وقت جس دوراہے پر کھڑا ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں اقتصادی و تجارتی سرگرمیاں تیز ہوں۔ قرب وجوار کے ممالک سے تجارتی راہداریاں کھلیں۔ بندرگاہیں اور آبی گزرگاہوں کو موٴثر اندازمیں تجارت اور نقل و حمل کیلئے استعمال کیاجاسکے۔ اس صورتحال میں جو سب سے مثبت رجحان نظر آتا ہے، و ہ ہے میاں نواز شریف کا رویہ۔
محسوس ایسا ہوتا ہے کہ انہوں نے ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھتے ہوئے اپنے آپ کو تبدیل کیا ہے اور ان کی تقاریر سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن قیادت کی سنجیدگی کے ساتھ ساتھ حالات کا موافقت میں ہونا لازمی ہے۔ لہٰذا پاکستان کو اس خراب ترین صورتحال سے نکالنے کیلئے تنہا نوازشریف کچھ نہیں کرسکتے۔ پاکستان میں امن و امان کی خراب صورتحال ، دہشت گردی کے عفریت نے خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ گزشتہ کئی دہائیوں سے فعال نہیں ہوسکی۔ اس کی بڑی وجہ اندرونی اختلافات اور دہشت گردی ہے۔ اس کے برعکس بھارت اور ایران کے اشتراک سے جنوبی صوبہ بلوچستان سے متصل سرحد پر عمان اور بحر ہند کی سرحد پر چار بہا کی بندرگاہ تکمیل کے مراحل میں ہے۔ یہ بندرگاہ کم و بیش گوادر کی بندرگاہ کا متبادل ہوسکتی ہے، کیونکہ اس کے گرد رابطوں کیلئے ریلوے کا مربوط نظام اور سڑکوں کی تعمیر بھی جنگی بنیادوں پر جاری ہے اور یہ بندرگاہ بھی وسطی ایشیاء، مشرق وسطیٰ اور یورپ کے لئے راہداری فراہم کر رہی ہے اور یہاں پر مستقبل میں بڑی تجارتی سرگرمیاں متوقع ہیں جو کہ پاکستان کے لئے انتہائی مایوس کن ہوگی کیونکہ یہ ریونیو پاکستان حاصل کرسکتا تھا اگر ہم لسانی ، نسلی اور فرقہ وارانہ کشیدگی سے باہر ہوتے۔ ملک میں سیاسی استحکام ہوتا تو اب سے پندرہ برس پہلے ہی ہم یہ تجارتی راستے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے جس سے بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا ہوتے۔ ملک کو زرِ مبادلہ کے ذخائر حاصل ہوتے اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی مصنوعات بھی مقابلے میں شامل ہوتیں۔ یہ ایک ہی نقصان نہیں ہے بلکہ آج ہم توانائی کے جس بحران کا سامنا کر رہے ہیں، اس کے نقطہ آغاز کو بھی ہمیں سمجھنا ہوگا۔ یوں تو 60ء اور 70ء کی دہائی میں ہمیں توانائی کے بحران کی پیش بندی کر لینی چاہئے تھی جو ہم نہیں کرسکے۔ اس پر طرفہ تماشا یہ کہ 90ء کی دہائی میں جب پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو امریکہ کی وزیر توانائی ہیزل اولیرری پاکستانی قوم کو یہ نوید سنائی گئی تھیں کہ نہ صرف بجلی کا بحران ختم ہوجائے گا بلکہ پاکستان میں ڈالروں کا سیلاب آجائے گا۔ لیکن ہوا اس کے برعکس اور امریکہ کی وزیر توانائی نے وہ بجلی گھر جو امریکہ میں ناکارہ قرار دے دئیے گئے تھے اور ماحول کے لئے نقصان دہ تھے، وہ پاکستان کو فروخت کرکے چلی گئیں۔ جبکہ کار آمد منصوبوں کے لیے صرف یادداشتی سمجھوتوں پر ہی دستخط کیے گئے جو آج تک روبہ عمل نہ لائے جاسکے اور آج پاکستان نہ صرف توانائی کے شدید بحران کا سامنا کر رہا ہے بلکہ جو بجلی دستیاب ہے، وہ اتنی مہنگی ہے جس نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ مہنگائی کا عفریت آسمان پر پہنچا ہوا ہے۔ مجموعی طور پر موجودہ حکومت کو جو پاکستان ملا ہے، وہ انتہائی مخدوش معیشت کا حامل ہے اور معیشت کے پہیئے کو چلانے کیلئے توانائی بھی دستیاب نہیں ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ہماری ساکھ اس لئے متاثر ہے کہ تاریخ کی بد ترین دہشت گردی ہمارے ملک میں موجود ہے جو ہمارے مجموعی تشخص کو مجروح کر رہی ہے۔ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے، یہ وہ موضوع ہے جس پر ہمارے مختلف شعبوں کے ماہرین اور سیاست دانوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور ایک ایسی پالیسی تشکیل دینا ہوگی جو ان مسائل کا حل دے سکے۔
دنیا کے تمام ممالک جب اپنے سفارتی نمائندوں کو تعینات کرتے ہیں تو وہ ملک میں اتفاقِ رائے سے ایسے ماہرین کو متعین کرتے ہیں جو انتخابات کے نتیجے میں حکومت تبدیل ہو یا حکمران ہی دوبارہ واپس آئیں، وہ تبدیل نہیں ہوتے اور ایسی سفارتی ٹیم ہی ملک کے لئے بہتر مہم چلا سکتی ہے۔ لابیز بنا سکتی ہے جو نہ صرف سرمایہ کاری کے فروغ میں مدد دے گی بلکہ پاکستان پر دنیا کا اعتماد بڑھے گا۔اس وقت طرح امریکہ اور دیگر ممالک کے سفیروں نے استعفیٰ دیا ہے، یہ کمزور قوم کی نشاندہی ہے۔ لہٰذا اب ایک ایسی خارجہ پالیسی بھی تشکیل دی جائے جو کم از کم 25سے 50برس تک کے چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی جائے۔ سفارتی عملے کی تبدیلی ناکامی کی صورت میں ہونی چاہئے نہ کہ سیاسی مفادات کی بنیاد پر۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات ہونا ہیں یا نہیں، اس کیلئے عسکری اور سیاسی قیادت کو ایک راہ کا تعین کرنا ہوگا کہ طالبان کا مستقبل کیا ہے؟ وہ کن بنیادوں پر قومی دھارے میں شامل ہوسکتے ہیں بظاہر وہ جمہوریت کے منکر ہیں۔ آئین کو تسلیم نہیں کرتے اور ایک مخصوص نظرئیے کے حامل نظام کے قیام کے خواہاں ہیں۔ یہ بڑی مشکل صورتحال ہے جس سے اس قیادت کو نبردآزما ہونا ہے۔ نسبتاً تجربہ کار قیادت سامنے آرہی ہے۔ ماضی میں حکومت کرنے کا تجربہ انہیں حاصل ہے۔ ریاستی امور کے اسرار و رموز سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ بیوروکریسی کو قابو کرنے اور اسے راہِ راست پر رکھنے کے بھی گر جانتی ہے لیکن جو مسائل درپیش ہیں، ان کی نوعیت ہمہ گیر ہے۔ لہٰذا اس کیلئے فیصلے بھی ہمہ گیر کرنا ہوں گے۔ راتوں رات بجلی گھر تعمیر نہیں ہوسکتے، نہ ہی چونسٹھ برس کی نفرتیں ختم ہوسکتی ہیں۔ نہ یہ توقع کرنی چاہئے کہ پلک جھپکتے میں کرائم فری اسٹیٹ بن جائے گی۔ دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی۔ لیکن ایک ایسا عمل ہے جس کو اختیار کیاجاسکتا ہے کہ موجودہ صورتحال کو بگڑنے سے روکا جائے۔ مسائل جہاں ہیں، وہیں انہیں فریز کردیا جائے۔ یہ قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ زخموں پر مرہم رکھے۔ ناانصافیوں کے خاتمے کے لئے قانون سازی سے لے کر انتظامی اقدامات تک ہر ممکن قدم اٹھائے اور ملک کو مسائل سے نکالنے کیلئے ایک نکتے پر تمام قوم کو ساتھ لے کر چلیں۔
تازہ ترین