سپریم کورٹ آف پاکستان میں این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات کے کیس میں نون لیگ کی امیدوار نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل مکمل ہو گئے۔
دورانِ سماعت مسلم لیگ نون کی امیدوار نوشین افتخار اور پاکستان تحریکِ انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی سپریم کورٹ پہنچے۔
مسلم لیگ نون کی ترجمان مریم اورنگزیب بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھیں۔
نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دیئے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے ان کی خیریت درفت کرتے ہوئے کہا کہ راجہ صاحب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟
سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ طبیعت پہلے سے بہت بہتر ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ امید کرتے ہیں کہ آپ مختصر دلائل دیں گے۔
سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی انکوائری کے بغیر فیصلہ دینے کی بات درست نہیں، الیکشن کمیشن نے تمام متعلقہ حکام سے رابطہ کیا۔
سلمان اکرم راجہ نے پورے حلقے میں دوبارہ انتخابات سے متعلق عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی حلقے میں کسی کو بھی تھپڑ مار دیا جائے تو دوبارہ پولنگ کیلئے یہی بات کافی ہے، کسی ایک پرتشدد واقعے سے پورا الیکشن متاثر ہوتا ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے ہدایت کی کہ سلمان اکرم راجہ صاحب آپ متعلقہ نکات پر دلائل دیں، گزشتہ سماعت پر دلائل مکمل نہ کرنا آپ کی ناقابلیت تھی، آپ کی جانب سےدلائل مکمل نہ کرنے سے طوفان برپا ہوا، آدھا گھنٹہ ہے آپ کے پاس دلائل مکمل کر لیں، جس کےبعد کچھ دیر علی اسجد ملہی کے وکیل اور الیکشن کمیشن کو بھی سنیں گے۔
نون لیگ کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہنگامہ آرائی 40 یا 76 پولنگ اسٹیشنز پر تھی، تاثر یہ تھا کہ پورے حلقے میں ہنگامہ ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ وکیل صاحب آپ نے پچھلے دلائل میں بتایا تھا کہ پولیس سمیت پولنگ اسٹاف کئی گھنٹے لاپتہ رہا، پولنگ اسٹاف میں کوئی ایک آدھ ملازم نہیں بلکہ 20 پریزائیڈنگ افسران لاپتہ رہے، وحیدہ شاہ کیس میں لاقانونیت کی تعریف بیان کی گئی ہے، آپ کی سہولت کیلئے کہہ رہے ہیں کہ آپ اس نکتے کی طرف آئیں، تاکہ ہم اس نکتے پر درخواست گزار سے اس کا جواب طلب کریں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دیہی علاقوں میں ٹرن آؤٹ 52 فیصد رہا، شہری علاقوں میں فائرنگ کے باعث ٹرن آؤٹ 35 فیصد سے کم تھا، الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی عمل میں رکاوٹیں منصوبے کے مطابق ڈالی گئیں۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کسی منصوبے کی بات نہیں کی، پریزائیڈنگ افسران کا موبائل ریکارڈ الیکشن کمیشن کے پاس نہیں تھا، موجودہ اپیل میں موبائل ریکارڈ یا ڈیٹا کا کس طرح جائزہ لیا جا سکتا ہے؟
جسٹس عمر عطاء بندیال نے سوال کیا کہ 20 پریزائیڈنگ افسران پولیس اسکواڈ کے ساتھ لا پتہ ہو گئے؟
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے جس نے اپنی تحقیقات کیں، الیکشن کمیشن نے جو حکم جاری کیا وہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے استعمال ہو گا، عدالت سے استدعا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ان 2 وجوہات کی بنیاد پر مؤثر قرار دیا جائے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پولیس افسر عمر ورک کے زیرِ کنٹرول علاقے میں کتنے پریزائیڈنگ افسر تھے؟
سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ اس علاقے میں لاپتہ ہونے والے پریزائیڈنگ افسران کی تعداد 8 ہے، کل 109 پولنگ اسٹیشنوں پر حالات خراب ہوئے، یہ اتنی بڑی تعداد ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن نے پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کا فیصلہ دیا، سول انتظامیہ نے ڈسکہ میں الیکشن کمیشن سے تعاون نہیں کیا؟ انتظامیہ کے عدم تعاون کا فائدہ حکومتی امیدوار کو ہوا، ڈسکہ میں پریزائڈنگ افسران کو ہی اغواء کر لیا گیا، پریزائیڈنگ افسران کا غائب ہونا سنگین بات ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے ہدایت کی کہ اپنے دلائل کو 20 پریزائیڈنگ افسران تک محدود رکھیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن متنازع پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کا حکم دیتا تو وہ بھی مناسب تھا، پورا حلقہ نہ بھی سہی تو 109 متنازع پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کرائی جائے، اوّلین استدعا ہے کہ پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کا حکم برقرار رکھا جائے۔
اس کے ساتھ ہی نون لیگ کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل مکمل کر لیئے جس کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کر دی۔