براڈ شیٹ کمیشن کی حالیہ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ اس کے ساتھ قومی احتساب بیورو (نیب) کے سوا متعلقہ حکومتی اداروں میں سے کسی نے کمیشن سے تعاون نہیں کیا۔
وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد براڈ شیٹ کمیشن کی رپورٹ پبلک کردی گئی، جس کی کاپی جیو نیوز نے حاصل کرلی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بیوروکریسی نے ریکارڈ چھپانے اور گم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، پاکستان لندن مشن سمیت براڈشیٹ کا ریکارڈ تقریباً ہر جگہ سے غائب تھا۔
اس میں کہا گیا کہ کمیشن کے سربراہ نے طارق فواد اور کاوے موسوی کا بیان ریکارڈ کرنا مناسب نہ سمجھا۔
اس میں بتایا گیا کہ نیب کے سوا متعلقہ حکومتی اداروں میں سے کسی نے کمیشن سے تعاون نہیں کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایسٹ ریکوری معاہدہ حکومتی اداروں کا بین الاقوامی قانون نہ سمجھنے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
رپورٹ کے مطابق کاووے موسوی کے الزامات کی تحقیقات کمیشن کے ٹی او آرز میں شامل نہیں ہے۔
کمیشن نے سفارش کی ہے کہ حکومت چاہے تو کاووے موسوی کے الزامات کی تحقیقات کرواسکتی ہے۔
کمیشن کے چیئرمین جسٹس (ر) عظمت سعید نے رپورٹ میں نوٹ لکھا کہ مارگلہ کے دامن میں رپورٹ لکھتے وقت گیدڑوں کی موجودگی بھی ہوتی تھی، لیکن گیدڑ بھبھبکیاں انہیں کام کرنے سے نہیں روک سکتیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ براڈشیٹ کو ادائیگی کا معاہدہ 22 لاکھ ڈالر میں کیا گیا تھا، احمر بلال صوفی نے اسوقت کے براڈشیٹ کے چیئرمین جیری جیمز سے رابطہ کیا تھا، جیری جیمز جس سے پہلا معاہدہ کیا گیا اس کا براڈشیٹ سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔
کمیشن نے رپورٹ میں کہا کہ اُس وقت کے نیب چیئرمین نوید احسان بھی اس معاہدہ میں شامل تھے۔
تاہم رپورٹ میں نوید احسان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سابق چیئرمین نیب نے بیان دیا تھا کہ احمر بلال نے جیری جیمز کے ساتھ معاہدے سے متعلق کچھ نہیں بتایا تھا۔
رپورٹ کے مطابق نیب کے افسر حسن ثاقب شیخ بھی معاہدے کے ساتھ جڑے تھے۔
اس میں بتایا گیا کہ پہلا سیٹلمنٹ معاہدہ براڈشیٹ ایل ایل سی جبرالٹر کے ساتھ ہوا تھا، جبرالٹر نام کی ایسی کوئی کمپنی نہیں تھی جس کے ساتھ پاکستان نے کبھی معاہدہ کیا ہو۔
براڈ شیٹ کمیشن نے جج کلیم خان جو اس وقت وزارتِ قانون میں تھے، کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھا دیے۔