صاحبو! شوکت علی بھی چل بسے۔ یہ کیا ہورہا ہے؟ سب ایک ایک کرکے بچھڑ رہے ہیں۔ لگتا ہے دل پہ غم کا ایسا بادل چھایا ہے جو چھٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔شوکت علی کے انتقال پرملال سے صرف ہم ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں موجود ان کے لاکھوں کروڑوں پرستار غمگین ہوگئے ہیں۔
امریکا، کینیڈا، برطانیہ، بھارت، پاکستان سمیت دنیا بھر میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ایسا نگینہ جو اب ہمیشہ کے لئے منوں مٹی تلے جاسویا ہے ایسی آواز جو اب ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی ہے، ایسا فنکار جواپنی مثال آپ تھا، جو جذبہ حب الوطنی سے سرشار تھا۔ جس کے سب مداح تھے، آہ ! چل بسا۔
شوکت علی 3؍ مئی 1944ء میں پیدا ہوئے، کم عمری میں ہی گائیکی میں نام بنایا اور ایسی دھاک بٹھائی کہ مرتے دم تک قائم رہی۔
یوں تو ہم ہمیشہ سے ہی شوکت علی کی گائیکی کے معترف رہے ہیں لیکن جب سے ہم نے خود گلوکاری کا سلسلہ شروع کیا ہے ہمارے دل میں ان کی قدر و منزلت اور زیادہ بڑھ گئی۔ سر، لے، تان، آواز کا اسکیل، اور رینج ان سب میں شوکت علی بلاشبہ بے مثال تھے۔
ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ ہم آرٹس کونسل گئے تو وہاں فیوژن بینڈ کے عمران مومنہ یعنی عمو مل گئے۔ ان سے ہماری علیک سلیک ہوئی اور پھر بات ہمارے گانے اور اس کی ریکارڈنگ کی ہونے لگی۔ عمو کو ہمارے لئے کوئی گیت یا غزل کمپوز کرنا ہے اور ان دنوں وہ نیٹ فلیکس کے کچھ پراجیکٹس میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ جلد ہی کچھ کمپوز کریں گے۔ ہم نے انہیں مختلف شعراس کے کلام بھی دیئے ہیں جن میں سے انہوں نے کچھ شارٹ لسٹ کئے ہیں۔
عمو سے ہم نے پوچھا کہ یوں تو ہم گائیکی میں مختلف تجربات کررہے ہیں لیکن آپ کوکیا لگتا ہے کہ ہماری آواز کے لئے کونسا اسٹائل موزوں ہے؟ہمیں ایک معروف گیت نگار نے مشورہ دیا کہ غزل وغیرہ کے چکر میں نہ پڑیں اور گٹار پہ پاپ اسٹائل میں گانے کا سلسلہ شروع کریں۔ ایک کلاسیکی گلوکار نے ہمیں سمجھایا کہ اچھل کود والے گانوں سے مکمل پرہیز کریں اور اطمینان سےبیٹھ کے نیم کلاسیکی یا غزل گائیں۔ ابھی ہم بہت کنفیوز ہیں۔ عمو نے ہماری بات توجہ سےسنی اور پوچھا کہ ابھی حال میں آپ کے کچھ کنسرٹ ہوئے ہیں آپ نے و ہاں کون سے گیت گائے اور آپ کو خود سب سے زیادہ مزا کیا گانے میں آیا؟ ہم نے ایک منٹ سوچا اور جواب دیا ’کدی تے ہس بول وے‘ اور ’دھمال‘۔
عمو مسکرائے اور کہنے لگے کہ اوہ اچھا فوک اور صوفی۔ ہم نے انہیں انتہائی جوش و خروش سے بتایا کہ ایک گانا جو ہم بہت شوق سے اور بہت زیادہ گاتے ہیں وہ ’کد تے ہس بول وے‘ ہے۔ عمو نے کہا کہ جو دل کے قریب ہو اور جواچھا لگے وہی گائیں اور ہم نے اپنے دل کو ٹٹولا تواس میں سے یہی نکلا ’کدی تے ہس بول وے‘ یہ سدابہار لوک گیت صرف ہمارے دل کے ہی نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کے دل کے قریب ہے۔
ان کی دھڑکن ہے۔ اس خوبصورت گیت کے خالق شوکت علی تھے۔ یہ گیت اتنے رچائو سے گایا گیا اور اتنے خلوص سے لکھا گیا کہ پاکستان سے باہر سرحد پار اس کی گونج سنائی دینے لگی۔ ہالی وڈ کی کامیاب فلم ’’لو آج کل‘‘ میں یہ گیت شامل ہوا اور سیف علی خان پر پکچرائز ہوا۔ دلچسپ بات ہے کہ اس فلم میں ہمارے عارف لوہار کی جگنی بھی شامل کی گئی۔
’’کد سے ہس بول وے‘‘ کو بہت سے گلوکاروں نے گایا، عاطف اسلم، نصیبو لال اور دیگر گلوکاروں کے علاوہ ہم خود۔ہم ابھی گزشتہ دنوں پی ٹی وی گئے تھے۔ لاہور سے نوجوان گلوکار عمار بیگ کراچی تشریف لائے تو پی ٹی وی کا بھی دورہ کیا، وہیں ہم سب پروگرام مینجر امجد شاہ کے کمرے میں بیٹھے اور میوزک جامنگ کی۔ عمار بیگ معروف گلوکار وارث بیگ کے صاحبزادے ہیں۔ ہم نے پہلی بار امریکا میں ان کو ڈاکٹرز کے ایک شو میں گاتے سنا تھا ہمیں ان کی گائیکی نے بہت متاثر کیا۔
امجد شاہ کے پاس عمار بیگ نے گٹار پہ ایک گیت سنایا جبکہ ہم نے اپنا فیورٹ ’’کدی سے ہس بول وے‘‘ سنایا۔ افسوس کہ اس گیت کے اوریجنل گلوکار شوکت علی اب ہم میں نہیں رہے۔وائس آف پنجاب ایوارڈ، پرائڈ آف پنجاب ایوارڈ، پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ پانے و الے شوکت علی نے بے شمار لوک گیت گائے اور یہی ان کی وجہ شہرت بنی۔
انہوں نے صوفیانہ کلام اور ملی گیت بھی گائے ہی۔ ان کے مقبول گیتوںمیں تیری میری اے ازلاں دی یاری، کیوں دور دور رہندے او، جب بہار آئی کے علاوہ بے شمار فلمی اور غیر فلمی گیت ہیں۔ ہیر وارث شاہ اور سیف الملوک گانے میں بھی ان کا ثانی نہیں تھا۔انہوںنے 1982ء میں ایشین گیمز منعقدہ دہلی میں لائیو پرفارمنس دی تھی۔ شوکت علی کو قوالی گانے کا بھی شوق تھا اور انہوںن ے قوالی بھی خوب گائی۔
ایک گیت ایسا ہے جو خاص طور سے شوکت علی کی پہچان بنا اور وہ ہے ’’ساتھیو مجاہدو جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘ یہ ایسا ملی گیت ہے کہ جب بھی اسے سنتے ہیں دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔ اس ملی گیت کے علاوہ بھی شوکت علی نے بہت سے قومی گیت گائے ہیں۔ 65ء کی جنگ میں جہاں ملکہ ترنم نور جہاں کے گائے ترانے ہمارا اثاثہ ہیں و ہیں شوکت علی کے گائے ملی گیت بھی جذبہ حب الوطنی کو ابھارتے ہیں۔
ٹی وی کا بلیک اینڈ وائٹ کا زمانہ ہو یا کلر نشریات کا، ہر دور میں شوکت علی ملی گیت گانے کے حوالے سے سرفہرست رہے۔ گلوکارہ شازیہ کےساتھ گایا ان کا دوگانا ’’اپنا پرچم ایک اپنا قائداعظم ایک ہے‘‘ سب کو یاد ہے۔
جب سے شوکت علی کا انتقال ہوا ہے ٹی وی پہ ان کا یہی گیت بار بار نشر ہورہاہے۔ ہر بار اس گیت کو سن کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
شوکت علی کے گائے گیت امر ہیں۔ ان جیسا فنکار صدیوںمیں پیدا ہوتا ہے وہ آخری دنوں میں کافی علیل تھے۔ ان کا بائی پاس ہوچکا تھا جبکہ وہ جگر اور گردوں کے عارضے میں مبتلاتھے، کافی برسوں سے ذیابیطس کا بھی شکار تھے۔ان کے صاحبزادے محسن شوکت فیس بک پر اپنے والد کی تصاویر لگاتے رہتے ہیں اور کچھ دنوںسے وہ دعائے صحت کی اپیل کررہے تھے۔
اپنے والد کی طرح محسن شوکت علی بھی بہت اچھےگلوکار ہیں۔ ہماری ان سے کینیڈا میں ملاقات ہوئی تھی۔ ہم نے ایک ٹی وی پروگرام کے لئے ان کا آن لائن انٹرویو بھی کیا تھا۔ محسن شوکت علی کے علاوہ شوکت علی کے دو بیٹے اور ہیں عمران اور امیر، تینوں بیٹے نہایت قابل اور نفیس ہیں۔ محسن اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے موسیقی کی دنیا میں اپنا نام پیدا کررہے ہیں۔
انہوں نے کینیڈا میں اپنے والد کے لئے ایک ڈاکیومینٹری بھی بنائی ہے۔ محسن کے لئے اور شوکت علی کے دیگر اہل خانہ کے لئے دعا ہے کہ اللہ انہیں صبر جمیل عطا کرے اور شوکت علی کے لئے دعا ہےکہ پروردگار انہیں جنت میں اعلی و ارفع مقام عطا فرمائے، آمین۔