کراچی میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران جہاں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد میں کئی گناہ اضافہ ہوا، وہیں کار اور موٹر سائیکل لفٹرز بھی سرگرم ہوئے،پولیس کی جانب سے روایتی تفتیش اور ٹیکنالوجی کا استعمال نہ کرنے کے باعث چھینی اور چوری کی گئی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی ریکوری حوصلہ افزاء نہیں رہی۔ شہر میں اس وقت سینکڑوں ٹمپرڈ گاڑیاں موجود ہیں، اسی طرح چھینی اور چوری کی گئی گاڑیوں کے پارٹس اب بھی شہر میں با آسانی دستیاب ہیں اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فروخت بھی ہو رہے ہیں۔
قانون میں کار اور موٹر سائیکل لفٹرز کے لیے کوئی بڑی سزا موجود نہیں ہے، جس کے باعث بہت سے کیسز میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ملزمان ضمانت کے بعد پھر سے اس جُرم میں ملوث ہو جاتے ہیں،شہر میں کئی گینگ تو ایسے ہیں، جن میں پوری پوری فیملیز وہیکل لفٹنگ میں ملوث ہیں، جب کہ کچھ گینگز کے کارندے درجنوں بار گرفتار ہو کر رہا ہو چکے ہیں اور رہائی کے بعد پھر اسی دھندے میں ملوث ہو جاتے ہیں۔
تاہم کراچی پولیس نے اب اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل ( اے وی ویل سی ) کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ایس ایس پی اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل عارف اسلم رائو کے مطابق اے وی ایل سی کو کو جدید طرز پر اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔
اے وی ایل سی نے ایک سینٹرلائز ایپ تیار کرلی ہے۔عارف اسلم راؤ کے مطابق ابتدائی طور پر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اے وی ایل سی کا ڈیٹا چیک کرنے کی اجازت حاصل ہوگی۔ تیار کی جانے والی ایپلیکیشن کے ذریعے پُورے سندھ کا وہیکل کرائم ڈیٹا چیک کیا جاسکتا ہے۔اس سلسلے میں اے وی ایل سی ڈیٹابیس کو سینٹرلائزڈ کرنے کا کام شروع کیا گیا ہے، عارف اسلم راؤ کے مطابق اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل ایک سافٹ وئیر پر کام کر رہی ہے، اپیلیکیشن کا بیک اینڈ یہ ڈیٹا بیس سافٹ وئیر ہوگا۔
اے وی ایل سی سندھ کے 30 اضلاع کے ڈیٹا پر کام کر رہی ہے، تمام ڈسٹرکٹ ایپلیکیشن کے ذریعے اپڈیٹس حاصل کرسکیں گے، عارف اسلم رائو نے مزید بتایا کہ اندرون سندھ سے مسلسل ڈیٹا اپ لوڈنگ کا سلسلہ جاری ہے، اوربہت جلد ڈیٹا بیس کا کام مکمل ہوجائے گا، ایس ایس پی اے وی ایل سی کا کہنا ہے کہ چوری کی گئی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کا بڑا حصہ اندرون سندھ اور بلوچستان جاتا ہے ،ہم مربوط سسٹم بنا رہے ہیں، جس سے کافی بہتری آئے گی۔
انہوں نے بتایا کہ کار اور موٹر سائیکل لفٹنگ کی روک تھام کے لیے شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر جدید کیمرے لگانے پر غور شرو ع کردیا گیا ہے، کچے کے علاقوں کی مانیٹرنگ سے بھی چوری کی گاڑیوں کی آمد و رفت کو روکنے میں مدد ملے گی۔
ایس ایس پی اے وی ویل سی کے مطابق کراچی کے مختلف علاقوں سے چوری اور چھنی ہوئی چھتیس (36) کاریں، چار سازگار رکشے اور پچیس (25) موٹر سا ئیکلیں ملک کے مختلف شہروں سے بر آمد کرکے مالکان کے سپر د کی گئی ہیں، جو کہ اے وی ایل سی کے مختلف افسران اور ریکوری ٹیم نے ملک کے مختلف شہروں سے بر آمد کیں، جن میں ٹویوٹا لینڈ کروزر، ٹویوٹا کرولا، کورے، سوزوکی مہران اور سوزوکی پک اپ، رکشے اور موٹر سائیکلیں شامل ہیں۔ تمام برآمد شدہ گاڑیاں ان کے اصل مالکان کے حوالے کی گئیں۔دوسری جانب اے وی ایل سی نے کراچی میں قائم مختلف گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے ہفتہ وار بازاروں میں اے وی ایل سی ویریفکیشن کیمپ قائم کر دیے ہیں،کیمپ پر اے وی ایل سی کے ماہرین کے علاوہ متعلقہ تھانہ پولیس کی نفری بھی موجود رہتی ہے۔
کیمپ پر موجود اے وی ایل سی اہلکار آن لائن ایپلی کیشن کی مدد سے چوری اور چھینے گئے وہیکلز ڈیٹابیس کے تحت آنے والی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی چیکنگ کرتے ہیں، ابتدائی طور پر نیو کراچی میں کار بازار اور نارتھ ناظم آباد کے موٹرسائیکل بازار میں کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ ان کیمپس کے قیام کا مقصد چوری یا چھینی گئی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی ممکنہ خرید و فروخت سے شہریوں کو بچانا اور اس کاروبار میں ملوث عناصر کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے۔
اس عمل سے گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی خریدوفروخت کے فراڈ میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اس طرح کے کیمپس کراچی کے مختلف بازاروں میں قائم کیے جائیں گے، جہاں آن سپاٹ ٹیکنیکل چیکنگ کی سہولت شہریوں کو مفت حاصل ہوگی۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن نے کار اور موٹر سائیکل لفٹنگ کے حوالے سے گزشتہ دنوں ایک خصوصی اجلاس کیا ،اجلاس میں ڈی آئی جی سی آئی اے، ڈی آئی جی ٹریفک اور چیف سی پی ایل سی شریک تھے ۔
اجلاس میں ایس ایس پی اینٹی لفٹنگ وہیکل سیل عارف اسلم راو نے افسران کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اے وی ایل سی نے تین ماہ میں وہیکل لفٹنگ میں ملوث 1259 ملزمان کو گرفتار کیا،اس دوران 49 گینگز کو توڑا گیا، جب کہ 125 گاڑیاں اور 1148 موٹر سائیکلیں برآمد کی گئیں،جن گینگز کو توڑا گیا، ان میں آرائیں گینگ،بنگالی گینگ،بٹ گینگ،کھوکھر گینگ،مگسی گینگ شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اے وی ایل سی نے تمام کباڑیوں کو نوٹس دیا ہے کہ وہ چوری یا چھینی گئی کسی بھی گاڑی کے پارٹس نہیں خریدیں گے۔ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن نے کہا کہ وہیکل کرائم کے لیے خصوصی قانون کا مسودہ تیار کرنے کا کہا ہے، جیسے منشیات کے لیے خصوصی قانون ہے وہیکل کرائم کے لیے بھی ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ کار اور موٹرسائیکل لفٹنگ میں ملوث عناصر کو سخت سزائیں ملنی چاہیے۔کم سزائیں ملنے سے ملزمان پھر وہی جرائم دہراتے ہیں۔
اے وی ایل سی ٹریفک چالان افسر اور پارکنگ لفٹر آپریٹر سے بھی تفصیلات شئیر کرے۔ تفتیشی افسران کے لیے فی کیس رقم بڑھانے کے لیے حکومت کو لکھا جائے گا، پولیس کے تمام ایس ایچ اوز اور ٹریفک ایس او اے وی ایل سی ایپ استعمال کریں گے،ایس ایچ او اور ایس او ٹریفک کو چھینی یا چوری کی گئی وہیکلز سے متعلق معلومات حاصل ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے داخلی و خارجی راستوں پر نمبر پلیٹس کی پہچان کے لیے آٹومیٹک کیمرے لگانے پر غور کر رہے ہیں، جس سے پولیس چوری کی گاڑی یا موٹرسائیکل کو کیمرے میں آتے ہی پکڑ سکے گی۔ ناردرن بائے پاس پر این ایچ اے کی جانب سے فینسنگ لگائی جائے گی۔ فینسنگ لگانے سے کچے کے تمام راستے بند ہوجائیں گے، راستے بند ہونے سے کار موٹرسائیکل لفٹنگ میں کمی آئے گیا۔
آئی جی کراچی غلام نبی میمن نے اس بارے میں بتایا کہ اصل ایشو یہ تھا کہ گاڑیوں اور موٹر سائیکل لفٹنگ کیس رجسٹر نہیں ہوتے تھے،پہلے ایک ماہ میں 500 کے قریب کیس رجسٹر ہوتے تھے، لیکن اب ہم نے کیس رجسٹریشن پر توجہ دی ہے، جس کی وجہ اب ان کیسز کی تعداد بڑھ کر 3000 کے قریب پہنچ گئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ کیس اگر فوری رجسٹر ہو تو ملزم کے پکڑے جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے اور اسے سزا بھی ملنے کا امکان ہوتا ہے، لیکن تاخیر سے کیس رجسٹر کرنے سے ملزم کو شک کا فائدہ جاتا ہے اور اکثر اوقات وہ چھوٹ جاتا ہے۔
ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل کو بہتر بنائیں اور اسے مضبوط کریں،اس کی مین پاور کو بڑھائیں،ہم نے حال ہی میں اے وی ایل سی کو 100 افسران مزید دیے ہیں،ایک ہفتہ قبل میں نے اے وی ایل سی میں اجلاس بھی کیا تھا ، جس میں کئی فیصلے کیے گئے تھے، جب کہ اس پر اس ہفتے مزید میٹنگز بھی شیڈول میں ہیں۔ہماری کوشش ہے کہ اس حوالے سے ایک الگ قانون ہو،ہمارے افسران کوشش کر رہے ہیں اور اسی ہفتے امید ہے کہ اس کا ڈرافٹ تیار ہو جائے گا۔
ہماری کوشش ہے کہ جلد سے جلد یہ قانون بنے، کیوں کہ ابھی یہ کورٹ کے اوپر ہے کہ وہ ملزم کو ایک دن کی سزا دے یا دس سال کی، لیکن ہماری کوشش ہو گی کہ قانون میں اس جُرم میں کم سے کم سزا کی بھی تجویز دی جائے، جیسے دنیا بھر میں سزا دی جاتی ہے،یہاں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ 2 ہزار روپے جرمانہ اور 15 دن کی سزا کے بعد ملزم باہر آ جاتا ہے۔اتنی کم سزا سے ملزم دوبارہ پھر کار اور موٹر سائیکل لفٹنگ کی وارداتوں میں ملوث ہو جاتا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ کار اور موٹر سائیکل کمپنیاں اپنی سیکیورٹی سسٹم کو بہتر کریں ،گاڑیوں کی انشورنس یا موٹر سائیکل کے ٹریکر کے حوالے سے حکومت کو فیصلہ کرے اور اس میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے،اس حوالے سے میں ڈی آئی جی سی آئی اے اور ایس ایس پی اے وی ویل سی سے بات کروں گا کہ اس معاملے کو دیکھیں اور جہاں پر یہ معاملہ رکا ہوا ہے ، وہاں سے اسے آگے لےکر جائیں۔
ہم نے جیو ٹیگنگ کے حوالے سے پروپوزل بنایا تھا ،اس پروپوزل کے مطابق عدالت عادی ملزم کو پابند کر دیتی ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے سے باہر نہ نکلے، ملزم کو ٹیگ لگایا جائے گا تاکہ اس کی موومنٹ کو مانیٹر کیا جائےسکے تاکہ وہ ایک مخصوص علاقے سے باہر نہ نکلے اور اگر نکلے گا، تو اس کی بیل کینسل ہو جائے گی۔
اسے ہوم ڈیپارٹمنٹ میں بھیجا گیا ہے، ہوم ڈیپارٹمنٹ نے اسے لاء ڈیپارٹمنٹ میں بھیجا اور وہاں سے یہ مکمل ہو کر کابینہ میں جا رہا ہے ،اگر یہ نافذ ہو گیا تو اس سے ہمیں بہت مدد ملے گی، کیوں کہ ابھی اس حوالے سے کوئی مانیٹرنگ سسٹم نہیں ہے ،جب تک مینوئل سسٹم کے بہ جائے ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کیا جائے گا، اس میں بہتری نہیں لائی جا سکتی،کراچی میں اب بہت سے کیمرے لگ چکے ہیں اور ہمیں اب سی سی ٹی وی مل رہی ہے۔
اس لیے افسران پُرانے اور عادی ملزمان کو پہنچان لیتے ہیں ،گزشتہ ہفتے ہم نے سی سی ٹی وی کی مدد سے تین سے چار گینگ پکڑے ہیں،ایک گینگ کے پکڑنے سے وارداتوں میں کافی کمی آتی ہے۔اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل کے کام کو بھی مزید بہتر کر رہے ہیں اور کوشش ہے کہ اس حوالے سے مختلف یونٹس بنائیں اور ان یونٹس کو ان گینگز کو پکڑنے کے ٹاسک دیے جائیں۔ہماری کوشش ہے کہ اپنی سمت کو دُرست رکھیں تاکہ آگے جا کر اس میں مزید بہتری آسکے۔