• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج میں آپ کو اپنے پرانے زمانے کے ایک ایسے سفر کی روداد سناتا ہوں جب میری کلاس کے لوگوں کا سفر دراصل انگریزی والا SUFFER ہوتا تھا۔

رات کو گیارہ بجے جب جھنگ سے تابوت جیسی شکل وصورت والی بس لاہور روانہ ہوئی تو مجھے جتنے کلمے یاد تھے وہ میں نے دل ہی دل میں پڑھ لئے۔ اس بس کو ڈھائی بجے شب لاہور پہنچنا تھاچنانچہ میرا خیال تھا کہ تین ساڑھے تین گھنٹے کی نیند میں بس میں لےلوں گا مگر جب بس اسٹارٹ ہوئی تو میں اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ باقی سب کچھ ہوسکتا ہے اس بس میں نیند نہیں آ سکتی ۔گیٹ کے برابر والی سیٹ کا سپورٹنگ راڈ ٹوٹا ہوا تھا بلکہ کئی دفعہ ٹوٹا ہوا تھا اور اس دفعہ تو اس کی ویلڈنگ بھی اکھڑی ہوئی تھی چنانچہ بس کے اسٹارٹ ہوتے ہی اس ٹوٹے ہوئے راڈ نے جلترنگ کی طرح بجنا شروع کر دیا۔ اگر معاملہ یہیں تک محدود رہتا تو شاید جلترنگ، نیند آور ثابت ہوتا مگر ڈرائیور نے گانوں کی کیسٹ بھی آن کر دی تھی۔اگر یہ ٹیپ صرف گانوں ہی پر مشتمل ہوتی تو شاید مجھے نیند آ جاتی مگر ﷲ جانے اس ٹیپ میں کون مظلوم قید تھا کیونکہ کثرت استعمال سے آواز بھی نہیں پہچانی جا رہی تھی بلکہ یہ اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں تھا کہ جو آواز ہم سن رہے ہیں وہ گانے والے کی ہے یا گانے والی کی ہے۔ اس کے علاوہ بس کے اندر کی تمام بتیاں ڈرائیور نے آن کر رکھی تھی جن کی موجودگی میں نیند آنا خاصا محال تھا۔ان سب چیزوں سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ دراصل نیند ڈرائیور کو آئی ہوئی ہے اور یہ سارا ماحول اس نے صرف خود کو جگانے کے لئے پیدا کیا ہے ۔غالباً اپنی نیند ہی پر قابو پانے کے لئے وہ تنگ سی سڑک پر بس کو فل اسپیڈ میں دوڑا رہا تھا اورمور اوور یہ کہ اس اسپیڈ پر بس چلاتے ہوئے وہ گردن موڑ کر کنڈیکٹر کو ہدایات بھی دیتا تھا۔ میری نشست بس کے بائیں جانب والے پہیے کے عین اوپر واقع تھی چنانچہ رہی سہی کسر ان جھٹکوں سے پوری ہو رہی تھی جو ہر دو منٹ بعد میرا مقدر بنتے تھے چنانچہ میں نے اپنا سر کھڑکی کے شیشے کے ساتھ ٹکا دیا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد مجھے اپنا سر بھی واپس ہٹانا پڑا کیونکہ کسی زور دار جھٹکے کی صورت میں سر ان دو راڈوں میں سے کسی ایک کے ساتھ جا ٹکراتا تھا، جو اس شیشے پر سے گزر رہےتھے۔اس پر میں نے دائیں جانب سرکنے کی کوشش کی مگر سیٹ اس قدر تنگ تھی کہ میرے ذرا سے دباؤسے دوسرا مسافر سیٹ پر سے گرتے گرتے بچا چنانچہ اس نے برا سا منہ بنا کر کہا’’بھاجی !آرام نال بیٹھو‘‘۔

اب میرے لئے نیند تو کجا سکون سے بیٹھنے کے تمام راستے بھی مسدود ہو چکے تھے چنانچہ میں نے سگریٹ نکالنے کےلئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو برابر والے مسافر نے ایک بار پھر برا سا منہ بنایا اور کہا ’’بھاجی اپنی جیب وچ ہتھ پاؤ‘‘۔میں نے شرمساری کے عالم میں ’’سوری‘‘ کہا اور پوری احتیاط کے ساتھ اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر سگریٹ کی ڈبیا نکالی مگر تلاش بسیار کے باوجود ماچس نہ مل سکی، چنانچہ میں نے بادل نخواستہ اپنے ہم نشست سے ماچس مانگی اور اس نے بادل نخواستہ جیب میں ہاتھ ڈال کر ماچس نکالی اور میری پھیلی ہوئی ہتھیلی پر رکھ دی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ بھی میری ہی طرح بیزار ہے کیونکہ یہ سفر وہ بھی سہولت سے کرنا چاہتا ہے مگر اس کی نشست بھی بس کے اسی پہیے پر واقع ہے جہاں پر میری نشست ہے۔ میں نے سگریٹ سلگا کر ماچس اسے واپس کی اور کش لگاتے ہوئے کھڑکی کے شیشے سے باہر کی طرف جھانکا مگر بس میں سے نکلتی ہوئی روشنیوں کے دائرے سے آگے اندھیرا تھا۔

بس فیصل آباد پہنچ چکی تھی،جھنگ سے روانہ ہوتے ہوئے کنڈیکٹر نے مسافروں کو یقین دلایا تھا کہ یہ بس براہ راست لاہور جائے گی مگر اب وہ مسافروں کو دوسری بس میں بٹھا رہا تھا، اس کا کہنا تھا بس خراب ہو چکی ہے۔دوسری بس کے حالات بھی دگرگوں تھے یہاں بھی پرشور گانوں کی گھسی ہوئی کیسٹ، بس کے اندر روشن تیز بتیاں، ناہموار سڑک اور ڈرائیور کی بے احتیاط ڈرائیونگ مسافروں کی نیند اڑائے ہوئے تھی۔ اس بس کے مسافر بھی بس پر نہیں بس کے پہیوں پر سفر کر رہے تھے اور اس دفعہ جو میرا ہم نشست تھا وہ خود ہی بے چین نہیں تھا اس کی مرغیاں بھی خود کو سخت بے چین محسوس کر رہی تھیں جن کی ’’نشست‘‘ اس مسافر کے پاؤں میں تھی۔ ہم جھنگ سے رات کوگیارہ بجے روانہ ہوئے تھے اور اصولاً ہمیں ڈھائی بجے لاہور پہنچ جانا چاہئے تھا مگر اس وقت صبح کے چار بج چکے تھے اور منزل کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں تھا،بس کی کھڑکیوں میں سے باہر کے موسم کا اندازہ ہوتا تھا، آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں اور بجلی بار بار چمک رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد بارش شروع ہو گئی اتنی تیز کہ ڈائریکٹ مسافروں کے سروں پر برستی لگ رہی تھی۔یہاں سے اب لاہور صرف آٹھ میل دورتھا اور بس ایک دفعہ پھر خراب ہو گئی تھی۔ بس میں بیٹھے ہوئے مرد ، عورتیں، بچے، بوڑھے ایک بار پھر ٹوٹے ہوئے جسموں کے ساتھ اٹھے اور تھکے قدموں کے ساتھ بس میں سے نکل کر سڑک پر آ گئے۔

ان کے اعصاب شل ہو چکے تھے، بارش ان کے سروں پر برس رہی تھی اور وہ ایڑیاں اٹھا کر کسی نئی بس کا انتظار کر رہے تھے۔ کسی ایسی بس کا جس کا ڈرائیور انہیں ان کی گم گشتہ منزل تک پہنچا دے۔

تازہ ترین