• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حذیفہ احمد

ماہرین ارضیات کرہ ٔارض پر تحقیقات کرکے نت نئی چیزیں دریافت کرنے میں سر گرداں ہیں ۔اس ضمن میں ماہرین نے شہابیے کا تجزیہ کرتے ہوئے کرۂ ارض پر موجود قدیم ترین مادّے کی دریافت کی ہے ۔1960ء کی دہائی میں زمین پر گرنے والی خلائی چٹان میں دھول گرد کے ذرّات ملے ہیں جوکہ تقریباً ساڑھے سات ارب(7.5) سال پرانے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق قدیم ترین دھول یا گرد کے ذرّات ہمارے نظام شمسی کے پیدا ہونے سے پہلے ستاروں میں وجود میں آگئے تھے ۔جب تارے یا ستارے مرتے ہیں تو ان میں بننے والے ذرّات اچھل کر خلا میں پھیل جاتے ہیں۔

یہ نظام شمسی سے پہلے موجود ذرّات پھر نئے ستارے ،سیارے ،چاند اور شہابیوں میں شامل ہو جاتے ہیں ۔اس تحقیق کے مصنف اور شکاگوفیلڈ میوزیم کے کیوریٹر اور شکا گو یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پرو فیسر فلپ ہیک کا کہنا ہے کہ یہ ستاروں کے ٹھوس نمونے ہیں ۔حقیقی ستاروں کے غبار ،امریکا اور سوئٹرز لینڈ کے ماہرین نے 1969 ء میں آسٹریلیا میں گرنے والے مرچیسن شہابیے کے ایک حصے میں موجود نظام شمسی کے وجود میں آنے سےپہلے 40 ذرات کی جانچ کی ۔ 

فیلڈ میوزیم اور شکا گو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی سائنس دان جینیکا کا گریر کا کہنا ہے کہ شہا بیے کے پس کر پائوڈر بن جانے والے حصے سے شروع ہوتا ہے ۔ 'جب تمام ٹکڑوں کو علیحدہ کر لیا جاتا ہے تو یہ پیسٹ کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور اس کی مسالے دار خصوصیت ہوتی ہے جو کہ سڑی ہوئی مونگ پھلی اور مکھن جیسی بو دیتا ہے ۔پھراس بدبو دار پیسٹ کو تیزاب میں گھلا یاجا تا ہے ،جس کے بعد اس میں اسٹار ڈسٹ یعنی ستاروں کا غبار بچ جاتا ہے۔

فلپ ہیک کے مطابق یہ پیال کے ڈھیڑ کو جلا کر سوئی تلاش کرنے جیسا ہے ۔یہ جاننے کے لیے کہ یہ ذرّات کتنے پرانے ہیں محققن نے پیمائش کی کہ وہ خلا میں کائناتی کرنوں میں کتنا رہے ہیں ۔ا ن کرنوں میں اعلٰی توانائی ہوتی ہے جوکہکشائوں سے گزرتی ہیں اورٹھوس مادّوں میں بھی داخل ہوجاتی ہیں ۔یہ کرنیں خو د سےٹکرانے والے مادّوں سے رابطہ کرتی ہیں اور نئے عناصر بناتی ہیں۔

جتنی دیر تک یہ مادّے کرنوں کے سامنے ہوتے ہیں وہ اتنے ہی عناصر بناتے ہیں ۔تحقیق کاروں نے ذرّات کی عمر کا پتہ چلانے کے لیے عناصر نیون کی خاص شکل (آئیسوٹوپ )این ای21 کا استعمال کیا ۔ڈاکٹر ہیک کے مطابق ہم اس کا بارانی طوفان میں ایک بالٹی رکھنے سے موازنہ کرتے ہیں ۔بالٹی میں جو پانی کی مقدار جمع ہوتی ہے ،ا س سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بالٹی بارش میں کتنی دیر رہی ہے ۔

اس میں جتنے نئے عناصر شامل ہوتے ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ ذرات کتنی دیر کائناتی کرنوں کے رابطے میں رہےاور وہ کتنے پرانے ہیں۔نظام ِشمسی سے پہلے کے کچھ ذرّات دریافت ہونے والے قدیم ترین ذرّات ثابت ہوئے ۔کائناتی کرنوں کے رابطے میںآنے کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر 4.6 ارب سے 4.9 ارب سال پرانے ہیں۔ڈاکٹر ہیک کا کہنا ہے کہ ان میں سے صرف 10 فی صد ذرات 5.5 ارب سال سے زیادہ پرانے ہیں جب کہ 60 فی صد ذرات نئے ہیں جن کی عمریں 4.6 ارب سال کے درمیان ہے اور باقی ذرات قدیم اور جدید ترین کے درمیان ہے ۔

ماہرین کے مطابق مرچنس اور دوسرے شہابیوں میں نظام شمسی کے وجود سے قبل کے بہت سارے دھات ہیں ۔ جن کی ابھی تک ہم نشاندہی کرنے میں قاصر ہیں۔اس سے قبل قدیم ترین نظام شمسی سے قبل کے ذرات کی دریافت نیون آئسوٹوپ کے معیار پر 5.5 ارب سال کی ہوئی تھی۔یہ دریافت اس مباحثے پر روشنی ڈالتی ہیں کہ کیا نئے تارے مستقل شرح پر بنتے رہتے ہیں یا پھر وقت کے ساتھ نئے تاروں کے بننے میں رفتار میں کمی بیشی نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر ہیک کا کہنا ہے کہ ان ذرات کی بدولت ہمارے پاس اب ہماری کہکشاں میں ستاروں کے وجود میں آنے کے وسیع زمانے پر پھیلے براہ راست شواہد ان شہابیوں کے نمونے میں موجود ہیں۔ یہ ہمارے مطالعے کی اہم دریافت ہے۔تحقیق کاروں کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نظام شمسی سے پہلے والے ذرّات عام طور پر خلا میں ایک ساتھ چپ کر گرانولا کی طر ح بڑے سے جھرمٹ کی شکل میں تیرتے تھے ۔کسی کو یہ اُمید نہیں تھی کہ یہ اس سطح پر ممکن تھا ۔

تازہ ترین
تازہ ترین