اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) دور دراز علاقوں کی احساس محرومی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ موٹر وے سے نیچے اتریں تو سڑکوں کے حقیقی حالات کا پتہ چلتا ہے۔کئی علاقوں پر ضرورت سے زیادہ توجہ ملتی ہے،بعض کو بالکل نظر انداز کیا جا تا ہےصوبائی سطح پر وسائل کی مساوی تقسیم ہونی چاہئے،سپریم کورٹ میں دور دراز علاقوں کی احساس محرومی سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کی۔ درخواست گزار راجا ناصر کا کہنا تھا کہ قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس سال میں 2مرتبہ ہونا چاہیے، اقتصادی کونسل اجلاس باقاعدگی سے نا بلانا آئینی مینڈیٹ کی خلاف ورزی ہے، صوبائی سطح پر وسائل کی تقسیم متوازن اور برابری کے اصول پر ہونی چاہیے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ صوبوں کےکئی علاقوں پر ضرورت سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے جبکہ ایسےعلاقے بھی ہیں جہاں عوام کو بالکل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے کئی علاقوں میں پینے کا پانی تک میسر نہیں، موٹروے سے نیچے جاؤ تو سڑکوں کے حال کا پتہ چلتا ہے، شہروں میں عالیشان سکول ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں تعلیم کا برا حال ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ متوازن ترقی اور وسائل کی مساوی تقسیم آئینی ذمہ داری ہے۔درخواست گزار راجا ناصر کا کہنا تھا کہ لاہور میں اربوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں، باقی صوبوں کے عوام چیختے رہ جاتے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ نیشنل اکنامک پالیسی بنانا عدالت کا کام نہیں، کس ضلع کو فنڈز دیے جانے چاہئیں یہ عدالت کیسے کہہ سکتی ہے؟جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کا آرٹیکل 184 تھری کے مقدمات میں معیار سخت ہو گیا ہے، آرٹیکل 184 تھری کا مقدمہ عام نہیں، بڑا سیریس ہوتا ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی درخواست اچھی ہے لیکن اس میں ترمیم کر لیں، درخواست کی استدعا اور دلائل میں فرق ہے۔بعدازاں سپریم کورٹ نے درخواست گزار کو آئینی درخواست میں ترمیم کی اجازت دے دی۔