ہمارے ملک میں ہماری معلومات کے مطابق پولیو کے قطرے پلانے کی مہم عالمی ادارہٴ صحت اور عالمی ادارہٴ اطفال کے تحت یا اُن کے تعاون سے انجام پاتی ہے اور اس میں بل گیٹس کے ٹرسٹ کا مالی تعاون بھی شامل ہے۔ دراصل این جی اوزکے بارے میں بھی اِن علاقوں میں منفی تاثرات ہیں، قومی یا بین الاقوامی این جی اوزکے توسط سے جو بھی پروگرام آئے وہ لوگ اسے امریکی اور مغربی ایجنڈا سمجھتے ہیں اور اس بات کو ان لوگوں کے دل ودماغ میں جاگزیں کرنا کوئی دشوار کام نہیں ہے جبکہ اس حقیقت کو بھی ہمارے سب اہلِ صحافت مانتے ہیں کہ ذہن سازی اور ذہنی تطہیر میں وہاں کارفرما لوگوں کو غیر معمولی ملکہ حاصل ہے۔ہم سوچ کے اس انداز سے قطعاً متفق نہیں ہیں، ہماری رائے میں چیزوں کو الگ الگ دیکھنا چاہئے جو چیز ہمارے لئے مفید ہو، اس کے اپنانے میں دینی اور شرعی اعتبار سے کوئی حرج نہیں ہے، البتہ جو چیز ہمارے لئے نقصان دِہ ہو، اُس سے اجتناب ضروری ہے لیکن کسی چیز کے بارے میں کوئی مثبت یا منفی رائے پوری تحقیق کے بعد قائم کرنی چاہئے ، محض سنی سنائی باتوں کو پھیلانا دین میں منع ہے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے”کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنی ہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو(تحقیق کے بغیر) لوگوں کے سامنے بیان کرتا پھرے“۔ تاہم مسئلے کے حل کے لئے کوئی راہ نکالنا بحیثیت قوم ہماری ذمہ داری ہے۔میرے نزدیک زیادہ بہتر حکمتِ عملی یہ ہونی چاہئے کہ وہاں کے سرکردہ اور جید علماء (جو استاذالعلماء کا درجہ رکھتے ہیں) اور سینئر اسپیشلسٹ ڈاکٹر صاحبان کو منظر پر رکھا جائے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بالعموم وہاں کے ڈاکٹر صاحبان کی ایک معتدبہ تعداد دینی مزاج بھی رکھتی ہے اور دینی وضع قطع کے بھی حامل ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان سب کے مجموعی تعاون کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان علاقوں کے بااثر طبقات کو اس مہم کا شریکِ کار بنایا جائے، ہماری حکومتیں اور حساس ادارے قبائلی علاقوں میں براہِ راست پولیٹیکل ایجنٹ کی معرفت ایسا کرتے رہے ہیں۔
حسن اتفاق سے اس وقت صوبہ خیبر پختونخوا میں جناب عمران خان کی قیادت میں تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہے، خان صاحب کا بین الاقوامی تعارف بھی کافی ہے۔ ہم نے پولیو ویکسین مہم کے مخالفین کے شبہات اور ان کے ازالے کیلئے جو صورتیں بیان کی ہیں، عمران خان صاحب نہایت احسن طریقے سے ان سے استفادہ کرکے اپنا ہدف حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ صوبہ خیبرپختونخوا میں اعلیٰ معیار کی لیبارٹریوں کے قیام کے لئے بیرونِ ملک سے خاطر خواہ مالی وسائل بھی حاصل کر سکتے ہیں اور یہ لیبارٹریاں صوبے کے عوام کیلئے مستقل طور پر مفید ثابت ہوں گی۔ اگر تمام تر تحفظات، احتیاطی اقدامات اور حکومت کی سرپرستی اور ذمہ داری میں یہ مہم چل رہی ہوتی تو ڈاکٹر شکیل آفریدی ایبٹ آباد میں ایک پرائیویٹ پولیو ویکسین مہم شروع کرنے کی جسارت کیسے کرپاتے؟
صرف نمائشی باتیں کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے، ماضی میں صوبہ خیبرپختونخوا میں یہ بات کی گئی کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کا Thalassemiaکا ٹیسٹ ہونا چاہئے، تھیلسیمیا خون کی ایک بیماری ہے جس کے نتیجے میں مریض کے خون میں سرخ خلیے کم ہوجاتے ہیں اور خون کا رنگ بدل جاتا ہے اور مریض کو مسلسل بیرونی خون کی ترسیل کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس قانون کی تجویز سے پہلے یہ نہیں سوچا گیا کہ صوبے میں بڑے شہروں اور دور دراز علاقوں میں یہ ٹیسٹ کیسے اور کہاں ہوں گے، کیا اس کے لئے مطلوبہ تعداد میں ایسی معیاری لیبارٹریاں موجود ہیں جن تک لوگوں کی رسائی آسان ہو اور انہیں یہ سہولت مفت حاصل ہو؟
میری ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ ایک مسئلہ جب ہمارے لئے قومی و ملکی اور عالمی سطح پر مشکل صورت اختیار کر جائے تو اس کے لئے انتہائی سنجیدہ ، نتیجہ خیز، تعمیری اور مثبت کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے،کبھی بھی نیم دلانہ یا سطحی کوششوں سے اس طرح کی مہمات سر نہیں ہوتیں۔ اگرچہ ہر کوشش اپنی جگہ قابلِ قدر ہوتی ہے، یقینا اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے اور ہم نے ہمیشہ ایسا ہی کیا ہے لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دنیا میں منظرِعام پر آنے والی ہر خرابی کو پاکستان کے سر تھونپ دیا جاتا ہے۔ ہمیں مذکورہ بالا بریفنگ میں بتایا گیا مصر میں پولیو کا ایک وائرس دریافت ہوا تو اس کے بارے میں یہ تحقیق منظر عام پر لائی گئی کہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں سکھر سے کسی مریض کے ذریعے یہ وائرس سفر کر کے مصر پہنچا ہے، اسی لئے دانائے روزگار لوگوں نے کہا تھا کہ
بد اچھا بدنام برا
نئی حکومت آئی ہے اس پر یقینا مسائل کا انبار ہے، مشکلات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، مسائل کے مقابلے میں وسائل کی قلت ہے لیکن ہماری شدید خواہش ہے کہ وفاق، تمام صوبے اور پارلیمینٹ میں جن جماعتوں کو نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے، سب مل کر پاکستان کو مسائل کی دلدل اور عالمی بدنامی کی چھاپ سے نجات دلائیں۔ سیاسی جماعتوں کے اختلافات اپنی جگہ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ قومی ترجیحات اور قومی ایجنڈے پر اتفاق رائے ہونا چاہئے، صرف اسی صورت میں ہم کامیابی کی منزل کی طرف پیش قدمی کر سکتے ہیں۔ کسی بھی حکومت کے کسی بھی اِقدام کے خلاف، خواہ وہ کتنا ہی اخلاص پر مبنی ہو، دلائل کے انبار لگائے جاسکتے ہیں اور اس شعبے میں ہمیں بحیثیت قوم پورا ملکہ اور مہارتِ تامّہ حاصل ہے لیکن وقت ہم سے مَتانت، اُولوالعزمی ، اتحاد اور استقامت اور ایثار کا تقاضا کررہا ہے، کاش کہ ہم اس کسوٹی پر پورا اتر سکیں۔