سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں طویل عرصے سے شہر کی اہم شاہراہوں و تجارتی مراکز میں بدترین ٹریفک جام کے مسئلہ شہریوں و تاجروں کے لئے درد سر بنا ہو اہے ، ضلعی، میونسپل کارپوریشن انتظامیہ اور ٹریفک پولیس کی جانب سے تمام تر دعوؤں، اقدامات کے باوجود ٹریفک جام کے مسئلہ کو مستقل بنیادوں پر حل نہیں کیا جاسکا ہے۔
شہر کی اہم ترین شاہراہوں و تجارتی مراکز میں چھوٹی و بڑی سیکڑوں گاڑیوں کا اژدھام، بدترین ٹریفک جام میں پھنسے رہنا روز کا معمول بن گیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے لاکھوں کی آبادی والے سکھر شہر میں ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لیے صرف 100 پولیس اہل کاروں کو تعینات کیا گیا ہے، جو کہ انتہائی ناکافی ہے، جب کہ ان100 ٹریفک پولیس اہل کاروں میں سے بھی متعدد اہل کار اپنے فرائض کی انجام دہی کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے ہیں۔
سکھر کو ٹریفک کے چار زون میں تقسیم کیا گیا ،چاروں زونز میں ٹریفک سارجنٹ مقرر کئے گئے لیکن ٹریفک سارجنٹ کسی بھی علاقے میں دکھائی نہیں دیتے جس کے باعث ٹریفک قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ شہر کی اہم ترین شاہراہوں منارہ روڈ، ایوب گیٹ، نیم کی چاڑی، ایکسائز آفس روڈ، حسینی روڈ، ریس کورس روڈ، پولیس ہیڈ کوارٹر روڈ، نواں گوٹھ، ملٹری روڈ، شکارپور روڈ، گھنٹہ گھر چوک، بیراج روڈ، شہید گنج، صرافہ بازار، اناج بازار، بندر روڈ، ورکشاپ روڈ، نشتر روڈ، میانی روڈ، سمیت دیگر علاقوں میں بدترین ٹریفک جام رہنا روز کا معمول بنا ہوا ہے۔ بالخصوص دوپہر کے وقت تعلیمی اداروں کی چھٹی کے دوران ٹریفک جام کی وجہ سے شاہراہوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔
رکشے، موٹر سائیکلیں، ویگنیں، کاریں و دیگر چھوٹی و بڑی سیکڑوں گاڑیوں کا اژدھام ٹریفک جام میں پھنسے رہنے کی وجہ سے مسافر گاڑیوں میں سوار مرد و خواتین، طلبہ و طالبات سمیت ضعیف العمر افراد کو انتہائی اذیت ناک صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ٹریفک جام کا مسئلہ بلڈ پریشر اور دل کے مریضوں کے لئے انتہائی خطرناک ہے اور ٹریفک جام میں پھنسے رہنے کی وجہ سے بلڈ پریشر کے مریضوں کا بی پی شوٹ کرجانے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
رکشے، موٹر سائیکلیں، ویگنیں، کاریں و دیگر چھوٹی و بڑی سیکڑوں گاڑیوں کا اژدھام ٹریفک جام میں پھنسے رہنے کی وجہ سے ایک جانب شہریوں کو مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے تو دوسری جانب مذکورہ علاقوں میں واقع دکانداروں کا کاروبار بھی متاثر ہوتا ہے۔ سکھر پولیس کی جانب سے چند ماہ قبل شہر میں ٹریفک کے نظام کی بہتری کے لیے جو اقدامات کئے گئے تھے اور مختلف شاہراہوں کو بیریئر لگا کر ٹریفک کے لیے ون وے کیا گیا تھا۔
اس کے مثبت نتائج سامنے آئے تھے۔ اس وقت ایس ایس پی امجد احمد شیخ اور سابق کمشنر سکھر ڈویژن ڈاکٹر محمد عثمان چاچڑ نے مشترکہ طور پر حکمت عملی کے تحت شہرمیں ٹریفک کے نظام کی بہتری کے لیے اقدامات کئے اور ٹریفک کا نظام بڑی حد تک بحال ہوا۔ تاہم گزشتہ چند سال سے مذکورہ افسران کی تبدیلی کے بعد شہر میں بدترین ٹریفک جام روز کا معمول بن گیا ہے، ٹریفک پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی کی انجام دہی کے بجائے قریبی ہوٹلوں، دکانوں میں بیٹھے گپے لگاتے دکھائی دیتے ہیں، جب کہ جو اہل کار ون وے پر عملدرآمد کے لیے وہاں موجود ہوں ، وہ بھی ون وے کی خلاف ورزی کو روکنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں، جب کہ مختلف شاہراہوں پر ٹائر کلرز بھی لگائے گئے، تاکہ ون وے کی خلاف ورزی کرنےوالوں کو روکا جاسکے۔ شروع میں تو ان اقدامات کے کافی مثبت نتائج سامنے آئے تھے اور ٹریفک جام کا مسئلہ کسی حد تک حل بھی ہونے لگا تھا ،مگر پھر ٹریفک پولیس اہلکاروں کی فرائض سے غفلت، ٹائر کلرز خراب ہونے اور شاہراہوں پر چلنے والے ٹریفک کو بے ہنگم ہونے سے روکنے کے لئے لگائے جانے والے بیرئیرز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے سے صورت حال دوبارہ پہلے جیسی ہوگئی ہے۔
حیرت انگیز طور پر عام دنوں میں شہر کی اہم شاہ راہوں و تجارتی مراکز میں کوئی بھی ٹریفک پولیس اہل کار اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے نظر نہیں آتا ہے۔ تو دوسری جانب شہر کی اہم شاہراہوں و تجارتی مراکز میں تجاوزات کی بھرمار کے باعث بھی چھوٹی و بڑی گاڑیاں ٹریفک جام میں پھنس جاتی ہیں۔
شہر کی اہم شاہراہوں و تجارتی مراکز سے تجاوزات کے خاتمے کی ذمے داری میونسپل کارپوریشن انتظامیہ کی ہے اور تجاوزات کے خاتمے کے حوالے سے میونسپل کارپوریشن سکھر میں ایک شعبہ اینٹی انکروچمنٹ بھی قائم ہے، لیکن اس شعبے کی کارکردگی گزشتہ کئی سال سے صفر دکھائی دیتی ہے۔ تجاوزات کے خاتمے کے لیے جوبھی آپریشن شروع کیا جاتا ہے، وہ سیاسی مداخلت کا شکار ہوکر دم توڑ دیتا ہے۔
مینارہ روڈ، بندر روڈ، بیراج روڈ، سٹی پوائنٹ، جیل روڈ، اسٹیشن روڈ، لوکل بورڈ سمیت دیگر علاقوں میں جہاں تیز ترین ٹریفک رواں دواں رہتی تھی، ان علاقوں میں بڑھتی ہوئی تجاوزات اور فٹ پاتھوں پر تندور، ہوٹل اور ہوٹل مالکان کی میز، کرسیوں سمیت دیگر دوکانداروں کا سازو سامان رکھ کر صورت حال کو مزید خراب کردیا گیا ہے اور پیدل چلنے والے لوگ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، وہ فٹ پاتھوں پر تجاوزات قائم ہونے کے باعث سڑکوں کے بیچ میں چلنے پر مجبور ہیں جس کے باعث آئے دن حادثات بھی رونما ہورہے ہیں۔
شہریوں نے ضلعی و میونسپل کارپوریشن انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے خاص طور پر نئے ایڈمنسٹریٹر میونسپل کارپوریشن علی رضا انصاری سے کہ شہر کے تمام علاقوں میں تجاوزات کے خاتمے اور اہم شاہراہوں پر فٹ پاتھ سے تجاوزات ختم کرنے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر حکمت عملی مرتب کریں اور اس طرح کا آپریشن کیا جائے کہ جس کے بعد دوبارہ تجاوزات قائم نہ ہوسکیں، جب کہ پولیس افسران کی جانب سے ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لیے ٹریفک پولیس اہلکاروں کی تعداد بھی بڑھائی جائے اور انہیں اپنے فرائض کی ادائیگی کا پابند بنایا جائے تاکہ ٹریفک جام کے مسئلہ کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جاسکے۔