• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حسنین عباس

علامہ اقبال کی شاعری کا مرکز و محور عشق رسول ﷺ ہے۔ انہوں نے نہ صرف عشق رسول کا درس دیا بلکہ آپ خود بھی سچے اور پکے عاشق رسول ﷺ ہیں۔ انہوں نے محبت رسول ﷺ کی تعلیم و تربیت اپنے والدین سے حاصل کی۔ علامہ اقبال ــ’’رموز بیخودی‘‘ میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ کوئی سائل بھیک مانگتا ہوا ان کے گھر کے دروازے پر آ کھڑا ہوا اور باوجودیکہ اسے کئی بار جانے کے لیے کہا گیا ، وہ اڑیل فقیر ٹلنے کا نام نہ لیتا تھا ۔ اقبال ابھی عنفوان شباب میں تھے ۔ 

اس کے بار بار صدا لگانے پر انہیں طیش آگیا جس کی وجہ سے جو کچھ اس کی جھولی میں تھا ، زمین پر گر کر منتشر ہو گیا۔ والد ان کی اس حرکت پر بے حد آزردہ ہوئے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ، فرمایا:قیامت کے دن جب رسول اللہ ﷺ کے گرد غازیانِ اسلام، حکماء، شہداء، زہاد، صوفیہ، علماء اور عاصیانِ شرمسار جمع ہوں گے تو اس مجمع میں اس مظلوم گدا کی فریاد آنحضور ﷺ کی نگاہِ مبارک کو اپنی طرف مرتکز کر لے گی اور آنحضور ﷺ مجھ سے پوچھیں گے کہ تیرے سپرد ایک مسلم نوجوان کیا گیا تھا تاکہ تو اس کی تربیت ہمارے وضع کردہ اصولوں کے مطابق کرے ، لیکن یہ آسان کام بھی تجھ سے نہ ہو سکا کہ اس خاک کے تودے کو انسان بنا دیتا ، تو تب میں اپنے آقا و مولا کو کیا جواب دوں گا؟اتنا ظلم نہ کر اور خدا را میرے مولاؐ کے سامنے مجھے یوں ذلیل نہ کر ۔ تو تو چمن محمدیؐ کی ایک کلی ہے ، اس لیے اسی چمن کی نسیم سے پھول بن کر کھل ، اور اسی چمن کی بہار سے رنگ و بو پکڑ، تاکہ آنحضور ﷺ کے اخلاق کی خوشبو تجھ سے آسکے۔‘‘

علامہ اقبال عملی زندگی میں سیرت رسول ﷺ اور احکام رسول ﷺ پر عمل پیرا رہے اور حرام کو ہمیشہ ترک کرتے۔ ایک دفعہ ان کو دردِ گردہ کی شدید تکلیف ہو گئی۔ ڈاکٹروں نے نہ معلوم کس بنا پر کھانے کے بعد ’’ برانڈی کا ایک پیگ‘‘ بطور دوا تجویز کیا لیکن حضرت علامہ نے اس سے صاف انکار کر دیا اور فرمایا : ’’ قیام یورپ کے دوران بھی جس چیز کو میں نے کبھی منہ نہ لگایا، اب اس معمولی سی تکلیف کے لیے کیسے استعمال کر سکتا ہوں ، اور میں تو موت سے بچنے کے لیے بھی کسی حرام چیز کا سہارا لینے کا روا دار نہیں ہو سکتا ۔ ‘‘ اس کے بعد وہ کافی عرصے تک دردِ گردہ کی شدید تکلیف برداشت کرتے رہے ۔ لیکن کبھی بھی ’’ برانڈی کے پیگ ‘‘ کا نسخہ استعمال کرنے کا خیال تک نہ آیا ۔ آخر حکیم نابینا کے علاج سے گردوں کی پتھری پیشاب کے ساتھ تھوڑی تھوڑی کر کے خارج ہو گئی ۔

حکیم الامتؒ کا دیرینہ خادم علی بخش بیان کرتاہے :’’ ایک دفعہ ایک غیر مسلم ، علامہ صاحب سے ملنے آیا اور میں نے اسے علامہ صاحب کے پاس پہنچا دیا کیوں کہ ان کے پاس ہر قسم اور ہر مذہب کے لوگ آتے تھے ، کسی کو روک ٹوک نہ تھی۔بیٹھتے ہی اس غیر مسلم نے ایک گلاس مانگا۔ میںنے اس کے ارادے سے نا واقفیت کی بنا پر گلاس لا کر دے دیا ۔ اس شخص نے ایک دم اپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے بوتل نکا لی اور گلاس میں شراب انڈیل کرغٹاغٹ چڑھا گیا۔یہ دیکھ کر علامہ صاحب کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور مجھے گرج دار آواز میں ڈانٹا : ’علی بخش ! تم نے اس کم بخت کو گلاس کیوں دیا اور جب یہ شراب پینے لگا تھا تو اسے منع کیوں نہیں کیا ؟ اب یہ گلاس باہر پھینکو اور اس بدتمیز کو یہاں سے نکال دو ۔ ‘ میں نے خاموشی سے ان کے احکامات پر عمل کیا لیکن باقی سارا دن ان کی طبیعت مکدر رہی اور اس روز، پہلی دفعہ، مجھے دو تین بار جھڑکیاں سننی پڑیں۔ ‘‘ یہ واقعہ اس حقیقت کا بیّن ثبوت ہے کہ خود شراب پینا تو در کنار ، علامہ صاحب کسی دوسرے کو بھی اپنے سامنے پینے کی اجازت نہیں دیتے تھے ، یعنی دوسرے الفاظ میں وہ شراب سے انتہائی درجے کی نفرت کرتے تھے۔

علامہ اقبال کی طبیعت میں اس قدر سوز و گداز تھا اور آپ حب رسولؐ میں اس قدر سرشار تھے کہ جب کبھی حضور علیہ السلام کا ذکر خیر ہوتا بے تاب ہو جاتے اور دیر تک روتے رہتے۔ اگر کسی وقت آپ سرکار دوعالمؐ کی سیرت پاک کے کسی عنوان پر گفتگو فرمانے لگتے تو ایسی عام فہم، سیر حاصل اور شگفتہ بحث کرتے کہ ہر موافق و مخالف گرویدہ ہو جاتا تھا۔ اگر آپ کے سامنے کوئی مسلمان محمدؐ صاحب کہتا، تو آپ کو بہت تکلیف ہوتی تھی۔ ایک بار کسی نے سرورِ دو عالم ﷺ کی شان میں کچھ گستاخانہ الفاظ استعمال کیے تو آپ بے حد برہم ہوئے اور فوراً اس کو محفل سے نکلوا دیا۔

جناب فقیر سیّد وحید الدین صاحب روزگار فقیر میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر محمد اقبال مر حوم کی سیرت اور زندگی کا سب سے زیادہ ممتاز، محبوب اور قابل قدر جذبہ عشق رسولؐ ہے۔ ذات رسالت مآبؐ کے ساتھ انھیں جو والہانہ عقیدت تھی اس کا اظہار ان کی چشم نمناک اور دیدۂ تر سے ہوتا تھاکہ جہاں کسی نے ان کے سامنے حضورؐ کا نام لیا ان پرجذبات کی شدت اور رقت طاری ہو گئی اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے۔رسول اللہ ﷺکا نام آتے ہی اور ان کا ذکر چھڑتے ہی اقبال بے قابو ہو جاتے تھے…اقبال کی شاعری کا خلاصہ، جوہر اور لب لباب عشق رسولؐاور اطاعت رسولؐ ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کی صحبتوں میں عشق رسولؐ کے جو مناظر دیکھے ہیں ان کا لفظوں میں اظہار بہت مشکل ہے۔

علامہ اقبال نے محبت رسولؐاور عشق مصطفیٰ ؐکا اظہار اپنے اشعار میں بہت سے مقامات پر کیا ہے۔ اپنی اردو شاعری میں انہوں نے خاتم النبییّن حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو متعدد اسماء سے یاد کر کے آپ ؐسے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے۔ محمد، احمد، مصطفیٰ، دانائے سبل، ختم الرّسل، مولائے کل، قرآں، فرقاں، یٰسیں، طٰہٰ، رسول، رسول عربی، نبی مرسل، شہِ یثرب، مولائے یثرب، رحمۃ للعالمین، رسول عربی، رسول ہاشمی، خدا کا رسول، رسول امیں، رسول مختار، نبی عفت، حضورِ رسالت مآب،حضور سروَرِ عالم، صاحبِ ’مازاغ‘، صاحبِ یثرب، مدفونِ یثرب، میر عرب، بدر و حنین کے سردار ،رفعت شان، رفعنا لک ذکرک اور بہت سے اسماء مبارک پر مشتمل اشعار زبان زد عام ہیں۔ان اسماء اور القاب مبارک کے استعمال سے جہاں علامہ اقبال کی شاعری کے حسن میں اضافہ ہوا ہے وہاں حضور اکرم ﷺسے علامہ اقبال کی عقیدت و محبت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

رسول اللہ ﷺکا اسم مبارک ـ’’محمدؐ‘‘ کو علامہ اقبال نے جن اشعار میں استعمال کیا ان میں سے چند اشعار بطور مثال پیش کیے جا رہے ہیں:

اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمدؐ

آیاتِ الہٰی کا نگہبان کِدھر جائے!

……

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے

……

دیں مسلکِ زندگی کی تقویم

دیں سر محمدؐ و براہیم

……

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا

روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو

……

محمدؐ بھی ترا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا

مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟

……

نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا

محمدؐ عربی سے ہے عالمِ عربی

……

قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں

کچھ بھی پیغامِ محمدؐ کا تمھیں پاس نہیں

علامہ اقبال کا یہ شعر تو آج ہر کسی نے سن رکھا ہے:

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

حضور نبی اکرم ﷺکا ایک اسم مبارک ’’احمدؐ‘‘ ہے۔ علامہ اقبال نے اس اسم کے ساتھ ملت کا لفظ جوڑ کا استعمال کیا ہے۔ علامہ فرماتے ہیںـ:

عشق کا دل بھی وہی، حسن کا جادو بھی وہی

اُمت احمد مرسلؐ بھی وہی، تو بھی وہی

کسی یکجائی سے اب عہد غلامی کر لو

ملت احمد مرسلؐ کو مقامی کر لو!

دین کے اتمام کے لیے اسم مبارک ’’مصطفیٰؐ‘‘ کو علامہ اقبال نے استعمال کیا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

اگر قبول کرے، دینِ مصطفی، انگریز

سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام

بمصطفٰیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است

عشق کے بیان میں بھی علامہ اقبال اسم ’’مصطفیٰ‘‘ کو ہی استعمال کرتے ہیں:

تازہ مرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا

عشق تمام مصطفیٰ، عقل تمام بولہب


عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰ

عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام


حضور نبی اکرم ﷺکے خاتم النبیّین ہونے پر علامہ اقبال نے درج ذیل اشعار میں شہادت دی ہے:


وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے


غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا


اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے


ملّتِ ختمِ رسل شعلہ بہ پیراہن ہے

ان اسماء النبی ؐکے لیے علامہ اقبال نے کچھ اور اسماء النبی ؐبھی اپنے اشعار میں جا بجا استعمال کیے ہیں۔ چند امثال پیش خدمت ہیں:

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر

وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ

……

کرم اے شہِ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم

وہ گدا کہ تو نے عطا کِیا ہے جنھیں دماغِ سکندری

تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ امت مسلمہ نے جب تک اپنے نبی ﷺ سے اپنا رشتہ الفت و محبت استوار رکھا، اوج ثریا ان کا مقدر رہا جیسے ہی دامن مصطفیٰ ہاتھ سے گیا امت مسلمہ زوال کا شکار ہو گئی۔ ذات رسالت مآب ؐکی ناموس پر ہونے والے حملوں کا جواب فقط اسی صورت میں ممکن ہے کہ امت مسلمہ اپنے نبیؐ سے اپنا تعلق عشق و محبت بحال کرے۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاـ:’’کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے لیے اس کے والدین، اس کی اولاد اور خود اس کی اپنی جان سے زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں‘‘۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری، تقریروں اور تحریروں میں اسی عشق رسول ﷺ کو دلوں میں بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ علامہ اقبال کے پیغام کو عام کیا جائے اور آئندہ آنے والی نسلوں میں عشق رسولؐ کی شمع روشن کریں۔ صرف یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے امت مرحومہ اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ بحال کر سکتی ہے۔ علامہ اقبال کی خواہش یہ تھی کہ وہ اپنا نور بصیرت آئندہ آنے والی نسلوں میں منتقل کر دے۔

خدایا ! آرزو میری یہی ہے

مرا نورِ بصیرت عام کر دے

تازہ ترین