لاہور ہائی کورٹ نے چینی کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ لوگوں کو بھکاری بنایا جارہا ہے۔ معاملہ صرف گورننس کا ہے۔ لوگوں کی لائنیں لگوائی جارہی ہیں اور شناختی کارڈ مانگے جا رہے ہیں۔ جو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
رمضان بازاروں میں چینی خریداروں کی لمبی قطاروں کے معاملے پر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد جمیل خان نے چینی کیس کی سماعت کی۔
فاضل عدالت نے چینی کی قیمت کنٹرول کرنے اور دستیابی یقینی بنانے کے لیے سیکرٹریز کو مہلت دے دی۔
عدالت نے واضح کیا کہ پرائس کنٹرول کرنا حکومت کا کام ہے۔
سرکاری وکیل نے بتایا کہ عدالتی حکم پر پنجاب کے تمام سیکرٹریز کی میٹنگز کروائی ہے۔ صوبے کے 36 اضلاع میں سے لاہور کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ تمام رمضان بازاروں کے ساتھ اسپیشل بوتھ بنایا جائے گا۔ جہاں سے آٹا اور چینی ملے گی۔
عدالت نے سرکاری وکیل کو ہدایت کی کہ رمضان بازاروں کے ساتھ عام مارکیٹ میں چینی کی دستیابی اور قیمت کو یقینی بنایا جائے۔
سرکاری وکیل نے بتایا کہ ایک لاکھ پچپن ہزار ٹن چینی دی جائے گی اور عوام نے سستی چینی کے لئے چینی زیادہ خریدنا شروع کر دی ہے۔ یہ عام المیہ ہے کہ جب کہیں سیل لگتی ہے تو قطاریں بھی لگتی ہیں۔
عدالت نے یورپ میں لگنے والی سیل اور رمضان بازاروں میں لگنے والی لائنوں کا موازنہ کرنے پر سرکاری لاء افسر پر برہمی کا اظہار کیا اور باور کروایا کہ یورپ میں جو سیل لگتی ہے کیا وہ بنیادی ضرورت ہے۔
درخواست پر مزید سماعت 28 اپریل کو ہوگی۔