روہڑی ریلوے اسٹیشن کا شمار ملک کے چند بڑے اسٹیشنوں میں کیا جاتا ہے، جہاں کراچی، پشاور، لاہور، کوئٹہ سمیت ملک کے مختلف شہروں سے آنے اور جانے والی ٹرینیں اسٹاپ کرتی ہیں اور محکمہ ریلوے میں بھی ملک کے تمام ڈویژنز میں سکھر ریلوے ڈویژن ایک بڑا ڈویژن ہے، جس کی حدود پنجاب اور بلوچستان تک ہے۔
اس اہم ترین اور مشہور روہڑی ریلوے اسٹیشن پر غیر یقینی اور اپنی نوعیت کی چُوری کی منفرد واردات سامنے آئی، جس میں ایک کم عمر لڑکے نے فلمی انداز میں خطرناک، انوکھی اور سب کو حیران و پریشان کر دینے والی چوری کی منفرد واردات انجام دی۔ چوری کی اس خوف ناک واردات جس میں اس کم عمر ملزم نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر بغیر کسی ڈر خوف کے چلتی ٹرین کے انجن کے نچلے حصے سے لٹک کر اس طرح کی چوری کی، جس کو دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ گئے
اور اس کم عمر چور نے پُوری ریلوے انتظامیہ اور پولیس میں ہلچل مچادی، اس واقعہ کے بعد انتظامیہ پریشان اور ریلوے پولیس کی دوڑیں لگ گئیں ۔ عام طور پر مسافر ٹرینوں میں چوری کی وارداتیں ہوتی رہی ہیں، جب کہ ریلوے کے اسکریپ چوری ہونے کے واقعات بھی سامنے آتے رہے ہیں، لیکن گزشتہ ماہ روہڑی ریلوے اسٹیشن پر چوری کی ایک غیر یقینی واردات اس وقت سامنے آئی، جب دوپہر ساڑے تین بجے حویلیاں سے آکر کراچی جانے والی ہزارہ ایکسپریس روہڑی ریلوے اسٹیشن سے کراچی کے لیے روانہ ہوئی، تو آگے جا کر چلتی ٹرین کے انجن سے ایک چھوٹا لڑکا اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر انجن کے نچلے حصے میں ویلوں کے قریب لٹک گیا اور انجن سے بریک بلاک نکال کر باہر پھینکا۔
اس انوکھی واردات کو ٹرین کے ایک مسافر نے اپنے کیمرے میں محفوظ کرلیا اور وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔ وڈیو وائرل ہونے کے بعد مختلف چینلز پر بھی یہ خبر دکھائی دی، جس کو دیکھ کر سب ہی حیران ہوگئے ،جب کہ چوری کی اس ان ہونی خطرناک واردات کے سامنے آنے کے بعد ریلوے انتظامیہ اور ریلوے پولیس بھی حرکت میں آگئی۔ ترجمان ریلوے پولیس داود خان کے مطابق چوری کی اس واردات کا مقدمہ نمبر 49/ 2021 پولیس اہل کار عاشق علی کی مدعیت میں روہڑی ریلوے تھانے پر نامعلوم 12 تیرہ سالہ لڑکے کے خلاف درج کیا گیا۔ اور چوری کی اس واردات کے بعد ایس پی ریلوے امجد منظور نے ریلوے پولیس کو الرٹ کردیا۔
ملزم کی گرفتاری کے لیے ٹیم تشکیل دی گئی، ساتھ ہی ریلوے پولیس کی ایک خفیہ ٹیم بھی تیار کی گئی، تاکہ جتنی جلدی ممکن ہوسکے، چوری کی واردات میں ملوث نامعلوم کم عمر ملزم کو گرفتار کیا جاسکے اور آخر کار ریلوے پولیس نے چند ہی روز میں اس نامعلوم چور کا سراغ لگا کر ملزم کو گرفتار کرکے اس کی نشان دہی پر قبرستان میں چھپائے گئے بریک بلاک برآمد کرلیے، ملزم نے چلتی ٹرین ہزارہ ایکسپریس کے انجن سے انہتائی مہارت کے ساتھ بریک بلاک نکالے تھے۔ ایس ایچ او تھانہ ریلوے پولیس روہڑی الطاف حسین کی سربراہی میں ریلوے تھانہ روہڑی کی پولیس نے نامعلوم ملزم کی تلاش کا کام کیا اور خفیہ طور پر ملزم کی گرفتاری کے لیے جو ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔
اس نے بتایا کہ ملزم کا سراغ لگا لیا گیا ہے، مذکورہ ملزم کا نام سرفراز ہے جو کہ روہڑی کے قریبی علاقے کا رہائشی ہے، جو ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اپنے سر کے بال اور ہلکی موچھیں اتروا کر بھیس بدل کر رہ رہا تھا۔ اس اطلاع پر پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار کیا اور ملزم کی نشاندہی پر بیدل بیکس قبرستان سے انجن کے چوری شدہ بریک بلاک برآمد کر لیے ہیں، ریلوے کی مسافر ٹرینوں میں یا اسٹیشنوں پر چوری کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ ان واقعات میں اب بڑی حد تک کمی واقع ہوئی ہے اور ریلوے کے اسکریب چُوری کرنے کے واقعات اور ملوث ملزمان کی گرفتاری کی خبریں بھی سامنے آتی رہتی ہیں، لیکن گزشتہ دنوں جس طرح ایک کم عمر لڑکے نے چلتی ٹرین کے انجن کے نچلے حصے سے لٹک کر اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر چوری کی یہ انوکھی واردات انجام دی، اس نے سب کو حیران و پریشان کردیا ،عام طور پر کوئی شخص چلتی ٹرین کے قریب کھڑا بھی نہیں ہوسکتا اور یہ 12 تیرہ سالہ لڑکا جس طرح چوری کی واردات انجام دینے کے لیے چلتی ٹرین کے انجن سے لٹک گیا۔
وہ نہ صرف حیران کُن بلکہ غیر یقینی ہے، لیکن حقیقت پر مبنی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے بچوں کو جو تھوڑے سے پیسوں کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ منفی کام انجام دیتے ہیں، اگر ان کی بہتر سمت میں رہنمائی کی جائے تو یہ بچے معاشرے میں بہت کار آمد ثابت ہوسکتے ہیں، کیوں کہ اس 12 سالہ بچے نے جو کام کیا اور جسں طرح خطرناک فلمی انداز میں کیا ، ایسا منفرد چوری کا واقعہ محمکہ ریلوے میں شاید کبھی نہ ہوا ہو، اس حوالے سے ریلوے پولیس کے ایک ریٹائرڈ آفیسر سعید احمد کانجو کے مطابق انہوں نے ریلوے پولیس میں 40 سال ملازمت کی اور دوران ملازمت سکھر ڈویژن میں روہڑی سمیت مختلف علاقوں میں تعینات رہے، لیکن اس طرح کی غیر یقینی چوری کی واردات نہیں دیکھی۔
ریلوے میں اس طرح کی منفرد چوری کی یہ پہلی واردات ہے، جو سامنے آئی ہے، کیوں کہ جس خطرناک انداز میں بچہ چلتی ٹرین کے انجن کے ساتھ لٹکا ہوا تھا، وہ غیر یقینی بات دکھائی دیتی ہے، کیوں کہ بچہ تو کیا کوئی بھی شخص چلتی ٹرین کے قریب کھڑا بھی نہیں ہوسکتا، لیکن اس بچے نے چلتی ٹرین کے انجن کے ساتھ لٹک کر جس مہارت کے ساتھ بریک بلاک نکالے ،وہ نہ صرف حیران بلکہ پریشان کُن ہے اور میرے 40 سالہ ملازمت میں ریلوے میں چوری کے واقعات تو سامنے آتے رہے، لیکن ایسا کوئی واقعہ نا کبھی سامنے آیا اور نہ ہی اپنے کسی سینئر افسر یا کسی اور سے سنا یہ ریلوے میں چوری کے حوالے سے اپنی نوعیت کا یہ منفرد واقعہ ہے، جو سامنے آیا ہے۔
چائلڈ پروٹیکشن سینٹر سکھر کے آفیسر محمد زبیر مہر کے مطابق جرائم کی وارداتوں میں ملوث بچوں کو اصلاح اور تربیت کی اشد ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ چُوری میں ملوث بچوں میں اکثر بچے جرائم کے ساتھ نشے کے عادی ہوتے ہیں اور ہلکا نشہ جس میں نسوار، گٹکا اور دیگر نشہ آور اشیا استعمال کرتے ہیں، چائلڈ پروٹیکشن سینٹر کی کئی برس کی کوششوں سے کراچی میں ایک بحالی سینٹر بنا ہے، جہاں جرائم میں ملوث بچوں کو تربیت دےکر انہیں منفی سرگرمیوں سے نکال کر مثبت سمت پر ڈالا جائے گا، تاکہ وہ معاشرے کا ایک اچھا انسان بن کر اپنی صلاحتیوں کو استعمال کریں۔ کراچی میں قائم ہونے والے سینٹر میں آنے والے بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ اصلاحی پروگرام اور تربیت بھی کی جاتی ہے تاکہ یہ بچے جو چھوٹی عمر سے جرائم کی دنیا میں آگئے ہیں، انہیں دوبارہ وہاں جانے نہ دیا جائے۔
اس طرح کے سینٹرز سندھ کے دیگر اضلاع میں بھی قائم کیے جائیں گے ۔ ہمارے پاس پولیس جو بچے لےکر آتی ہے، ان میں زیادہ تر بچے چوری کی وارداتوں میں ملوث ہوتے ہیں، جب کہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اکثریت بچوں کی ایسی ہوتی ہے، جن سے ان کا والد یا بھائی جرائم کراتے ہیں اور ان کی کم عمری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، جس سے یہ بچے چُوری کے عادی ہو جاتے ہیں ، جنہیں ہم چند دن تک اپنے پاس رکھتے ہیں، پھر والدین کے حوالے کرتے ہیں اور والدین کو بھی سمجھایا جاتا ہے کہ یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں، ان کی اصلاح کریں انہیں تعلیم دلائیں اور اچھا شہری بنائیں ۔
زبیر مہر کے مطابق سات 8 سال کی چوری میں ملوث بچی کو ہمارے حوالے کیا گیا، ہمارے سینٹر میں وہ بچی پوری رات سو نہیں سکی اور دیوار میں سر مار رہی تھی کہ مجھے نسوار دو میرا سر گھوم رہا ہے، ایسی صورت حال بھی ہوتی ہے۔
بچوں کے لیے ہمارے پاس دارلاطفال سینٹر ہے، جہاں ان بچوں کو عارضی طور پر رکھا جاتا ہے، ایک دو یا تین روز میں جب ان کے والدین سے رابطہ ہوتا ہے تو ان کی کونسلنگ کرکے بچوں کو ان کے حوالے کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جیلوں میں بھی ان بچوں کی اصلاح کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے، جیل بھی اصلاح ہوم کے طور پر بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں ، اگر وہاں جرائم میں ملوث بچوں کے لیے تعلیم اور اصلاحی پروگرام کے مکمل انتظامات ہوں، تو یہ جرائم پیشہ بچے جیل سے ایک باصلاحیت اور قابل شہری بن کر نکلیں۔