دُنیا بھر جرائم کو کنٹرول کرنے اور جرائم میں ملوث عناصر پر نظر رکھنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے ،ٹیکنالوجی کے دُرست استعمال سے نہ صرف جرائم میں ملوث ملزمان کا پتہ لگایا جا سکتا ہے، بلکہ جرائم کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد ملتی ہے ۔دُنیا کے بڑوں شہروں میں سیف سٹی پروجیکٹ بہت ہی کام یابی سے چلائے جا رہے ہیں ، لیکن ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حَب کراچی میں اب تک یہ منصوبہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔
ماضی میں حکومت کی جانب سے کئی بار یہ دعوے کیے گئے کہ کراچی میں سیف سٹی پراجیکٹ جلد مکمل ہو جائے گا اور پولیس کے اعلیٰ حکام کی جانب سے بھی کئی بار اس کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ تاہم تاحال کراچی میں یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ لاہور سمیت پنجاب کے کئی شہریوں میں سیف سٹی پروجیکٹ کام یابی سے جاری ہے اور اسے باقاعدہ اٹھارٹی بنا کر اس کا نام پنجاب سیف سٹیز اٹھارٹی رکھ دیا گیا۔ سندھ پولیس کے کئی افسران کی جانب سے کئی بار پنجاب سیف سٹی اٹھارٹی کا کئی بار دورہ بھی کیا گیا۔ تاہم سندھ حکومت تاحال اسے مکمل نہیں کر سکی۔
لاہور سیف سٹی پروجیکٹ کے ذریعے اب تک 10 ہزار سے زائد ثبوت جمع کروائے جاچکے ہیں، جن سے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے کیسز کو حل کرنے میں مدد ملی۔ لاہور سیف سٹی پروجیکٹ کے ذریعے صرف سال 2018 اور 2019 میں 150 سے زائد گمشدہ بچوں کو ڈھونڈ کر ان کے والدین کے حوالے کیا گیا۔ سیف سٹی کے ذریعے لاہور میں اب تک کروڑوں روپے مالیت کے گاڑیوں کے چالان کیے جا چکے ہیں۔ سیف سٹی کے ذریعے ریسکیو 1122 آپریشن،الیکٹرونک ثبوتوں کو جمع کرنے،امن و امان کی صورت حال پر نظر رکھنے،سروس ڈیلیوری کو بہتر بنانے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جواب دہ بنانے ،کائونٹر ٹیررازم سرویلنس اور ٹریفک مینجمنٹ سسٹم کو بہتر بنانے میں مدد مل رہی ہے۔
دوسری جانب کراچی جیسے بڑے شہر میں اس کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن کہتے ہیں کہ سیف سٹی پروجیکٹ کراچی کے لیے بہت ضروری ہوگیا ہے اور اس سے پولیس کو جرائم کو کنٹرول کرنے اور ملزمان کو پکڑنے میں بہت مدد ملے گی ۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران پولیس نے کئی ملزمان کو سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے گرفتار کیا ہے اور اگر سیف سٹی پروجیکٹ کے بعد ملزمان کی گرفتاری سمیت مختلف جرائم کے ثبوت اکٹھے کرنے میں بھی پولیس کو مدد ملے گی۔سیف سٹی کے ذریعے ملزمان کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی اور اس کے ذریعے ایس ایچ اوز سمیت مختلف ذمےداریاں ادا کرنے والے افسران اور اہل کاروں کی بھی مانیٹرنگ کی جا سکتی ہے کہ آیا ایس ایچ او تھانے میں موجود ہے یا نہیں یا ڈیوٹی پر موجود پولیس موبائل کنٹرول پر جس جگہ اپنی موجودگی بتا رہی ہے، وہ وہاں پر ہے بھی یا نہیں۔
اس پروجیکٹ کے ذریعے ٹریفک مینجمنٹ سسٹم کو بہتر بنانے میں بھی مدد مل سکتی ہے اور ای چالان کے ذریعے قانون توڑنے والے افراد کے گھروں پر چالان پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا جا سکتا ہے ، ٹریفک سگنلز کو سینٹرلائز نظام سے منسلک کرنے اور وی وی آئی پی موومنٹ کو مینج بھی کیا جا سکتا ہے،اس کے ذریعے مددگار15 کے سسٹم کو منسلک کر کے فوری رسپانس کے وقت کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس سسٹم کے ذریعے ویسٹ میجمنٹ کمپنیاں کچرا اٹھانے اور اسے ٹھکانے لگانے کی مانیٹرنگ کر سکتی ہیں، جب کہ غیر قانونی اور ماحول دشمن تعمیرات پر بھی نظر رکھی جا سکتی ہے، یعنی صرف سیکیورٹی ضروریات کے علاوہ بھی دیگر سیکٹرز اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
دوسری جانب اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت ایک اجلاس میں کراچی میں 30 ارب روپے کی لاگت سے10 ہزار سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کی منظوری دی گئی ہے،پہلے مرحلے میں شہر کے تمام داخلی اور خارجی راستوں اور ضلع جنوبی میں 9.9 ارب روپے کی لاگت سے کیمرے لگائے جائیں گے۔ اس منصوبے کے تحت شہر میں تین مراحل میں 10 ہزار سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں گے اور آئندہ مالی سال 22-2021 سے شروع ہونے والے ہر مرحلے کو 12 ماہ کے اندر مکمل کیا جائے گا۔
اجلاس میں صوبائی وزیر آئی ٹی نواب تیمور تالپور ، چیف سیکریٹری ممتاز شاہ ، چیئرمین پی اینڈ ڈی محمد وسیم ، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ عثمان چاچڑ ، وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری ساجد جمال ابڑو ، سیکرٹری خزانہ حسن نقوی ، ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ، انچارج سیف سٹی پروجیکٹ عمران یعقوب منہاس ، صوبائی این آر ٹی سی کے سربراہ بریگیڈ (ر) نیئر ، جی ایم این آر ٹی سی سہیل انجم اور دیگرنے شرکت کی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ این آر ٹی سی نے ٹیکنکل اور مالی تجاویز پیش کی ہیں، جن کی جانچ کمیٹی کے ذریعے اندازہ لگانے ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے این آر ٹی سی تجویز کا جائزہ لینے کے لیے سیف سٹی پروجیکٹ کے چیف آپریٹنگ آفیسر (سی ای او) کے تحت 9رکنی ٹیکنیکل کمیٹی تشکیل دینے کی منظوری دی۔
گوکہ کراچی میں کئی برس قبل سیف سٹی پروجیکٹ کو مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔ تاہم دیر سے ہی سہی اگر اس فیصلے پر پُوری طرح عمل در آمد ہو گیا تو اس سے شہر میں جرائم کو کنٹرول کرنے اور چیزوں کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے گے۔