اسلام آباد(رپورٹ :،رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے سینئر جج، مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس کے حوالے سے جاری کئے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیرا گراف نمبرہائے 4تا11 کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، محترمہ سیرینا عیسیٰ، وکلاء اور صحافیوں کی تنظیموں کی جانب سے د ائر کی گئی نظر ثانی کی درخواستیں چھ ،چار کے تناسب سے منظور کرتے ہوئے سابق فیصلے کے مذکورہ بالا پیرا گرافس کو غیر قانونی اور غیر موثر ہونے کی بناء پر کالعد م قرار دیدیا ہے، جسکے نتیجہ میں سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کسی بھی فورم یا اتھارٹی میں اس معاملے پر مزید کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی ہے، درخواستیں منظور کرنے والے 6ججوں میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم خان میا ں خیل ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس امین الدین خان جبکہ اختلاف کرنے والے 4ججوں میں بنچ کے سربراہ،جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ،جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین احمد شامل ہیں ، پیرکے روز جاری کئے گئے چھ صفحات پر مشتمل اکثریتی فیصلے میں فاضل عدالت نے قرار دیاہے کہ اس مختصر فیصلے کی تفصیلات بعد میں قلمبند کی جائیں گی، یہ درخواستیں منظور کی جاتی ہیں اوریہ عدالت آئینی درخواست نمبر 17/2019میں سپریم کورٹ کے 19جون 2020کے فیصلے کے پیرا گراف نمبرہائے 4تا11 (معاملہ مزید تحقیقات کیلئے ایف بی آر کو بھجوانے اور اسکی رپورٹ کی روشنی میں سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے غور کیلئے رکھنے )پر دوبارہ غور کرتے ہوئے اس فیصلے کو کالعد م قرار دیتی ہے اور ان پیرا گرافس میں اس آئینی درخواست اورمتعلقہ معاملات، اس فیصلے کے اجراء کے بعد ہونے والی تمام کارروائیوں، اقدامات، احکامات، معلومات اور رپورٹوں، جو کہ مختصر فیصلے میں جاری کی گئی تھیں اور بعد ازاں تفصیلی فیصلے میں بھی بیان کی گئی تھیں، کو غیر قانونی اور غیر موثر قرار دیاجاتا ہے ،نتیجتاًایسی کسی کارروائی، اقدامات ،احکامات اوررپورٹوں پر غور نہیں کیا جاسکتا ہے ،نہ ہی کسی بھی شکل میں جسٹس فائز عیسیٰ، اہلیہ اور انکے بچوں کیخلاف کسی بھی فورم یا اتھارٹی بشمول سپریم جوڈیشل کونسل میں اس معاملے پر مزید کوئی کارروائی کی جاسکتی ہے،دوسری جانب عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سول پٹیشن نمبر 296/2020کو پانچ پانچ کے تناسب سے نمٹا دیا ہے۔ درخواستیں منظور کرنے والوں میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان شامل ہیںجبکہ خارج کرنے والوں میںجسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس سجاد علی شاہ،جسٹس منیب اختر، جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل ہیں، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس درخواست کے حوالے سے علیحدہ سے لکھے گئے اپنے نوٹ میں قرار دیاہے کہ مختصر فیصلے کی تفصیلات بعد میں قلمبند کی جائیں گی، تاہم ماسوائے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سول پٹیشن نمبر 296/2020 (جس میں ، جسٹس یحییٰ آفریدی نے قراردیا تھا کہ ایک جج کو درخواست گزار نہیں بننا چاہیے) یہ سب درخواستیں منظور کی جاتی ہیں۔ انہوںنے بھی اپنے فیصلے میں قرار دیاہے کہ یہ عدالت آئینی درخواست نمبر 17/2019میں سپریم کورٹ کے 19جون 2020کے فیصلے کے پیرا گراف نمبرہائے 4تا11 پر دوبارہ غور کرتے ہوئے اس فیصلے کو کالعد م قرار دیتی ہے اور ان پیرا گرافس میں اس آئینی درخواست اورمتعلقہ معاملات ،اس فیصلے کے اجراء کے بعد ہونے والی تمام کارروائیوں، اقدامات، احکامات، معلومات اور رپورٹوں، جوکہ مختصر فیصلے میں جاری کی گئی تھیں اور بعد ازاں تفصیلی فیصلے میں بھی بیان کی گئی تھیں، کو غیر قانونی اور غیر موثر قرار دیتی ہے، نتیجتاًایسی کسی کارروائی،اقدامات، احکامات اوررپورٹوں پر غور نہیں کیا جاسکتا ہے،نہ ہی کسی بھی شکل میں کسی بھی فورم یا اتھارٹی بشمول سپریم جوڈیشل کونسل میں اس معاملے پر مزید کوئی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ مقدمے میں جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم خان میا ں خیل نے اپنے پرانے فیصلے سے رجوع کرلیا۔ دوران سماعت جسٹس فائز عیسیٰ نے بینچ سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال سے سوال کیا کہ کیا شکایت کنندہ آپ ہیں، آپ اپنے سوالات حکومتی وکیل کے منہ میں ڈال کر حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس فائز کے خیال میں انکی اہلیہ کی دستاویزات کا جائزہ لینا غلط ہے، عدالت کو صرف ایک موقف سننا چاہیے۔ دریں اثناءپاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین، خوشدل خان نے فیصلے کو قانون وانصاف کی فتح قرار دیاہے۔ تفصیلات کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل 10 رکنی فل کورٹ لارجر بنچ نے پیر کے روز کیس کی سماعت کی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ سرینا عیسیٰ اور صاحبزادی کے ہمراہ پیش ہوئے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل، عامر رحمٰن نے اپنے گزشتہ روز کے دلائل کوجاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت اس مقدمہ میں باضابطہ فریق ہے،اسی بناء پر فاضل عدالت نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا تھا۔ انہوںنے کہاکہ وفاقی حکومت نے ریفرنس کالعدم ہونے پر نظرثانی کی درخواست نہیں دائر کی تھی ،عدالت نے ریفرنس قانونی نقاط میں بے احتیاطی برتنے پر کالعدم کیا تھا۔ انہوںنے کہاکہ عدالت نے قرار دیا تھا کہ سرینا عیسیٰ کو وضاحت کاموقع دیئے بغیر ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ گر یہ عدالت کیس ایف بی آر کو مزید تحقیقات کے لئے نہ بھجواتی تو وفاقی حکومت نظر ثانی کی درخواست دائر کرتی،اسلئے حکومت کیس آیف بی آر کو بھجوانے کا دفاع کرنے میں حق بجانب ہے۔ انہوںنے کہاکہ اس کیس میں عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد ہو چکا ہے، جسکے بعد فیصلہ واپس نہیں لیا جا سکتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ سپریم جوڈیشل کونسل کو کسی بھی مواد کا جائزہ لینے سے نہیں روکا جا سکتا ہے،آئین کے آرٹیکل 211 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی چیلنج نہیں کی جا سکتی ہے اور سپریم کورٹ بھی سپریم جوڈیشل کونسل کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتی ہے۔انہوںنے کہاکہ ہمارا روز اول سے ہی یہ موقف رہا ہے کہ جوڈیشل کونسل کو عدالت نے کوئی ہدایت نہیں دی ہے،سپریم کورٹ صرف غیر معمولی حالات میں ہی جوڈیشل کونسل کے کام میں مداخلت کر سکتی ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کہتے ہیں وہ اہلیہ کے اثاثوں کے جوابدہ نہیں ہیں، معزز جج اورعدالتی ساکھ کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے،جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ شکایت کنندہ ہیں؟ ایسے سوالات سے آپ کوڈ آف کنڈکٹ اور حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں،جس پر انہوںنے کہا کہ عدالت کو شاید ایک فریق کاموقف سن کر اٹھ جانا چاہیے،جس پر انہوںنے کہاکہ پچھلے دو سال سے جو مصائب ہمارا خاندان بھگت رہا ہے خدا کسی کو بھی ان سے دوچار نہ کرے۔دوران سماعت سرینا عیسیٰ نے کہا کہ جسٹس عمرعطا بندیال اورجسٹس منیب اختر ہمارے احتساب کیلئے بہت کوشش کررہے ہیں،یہ دونوں فاضل جج اپنے اور اپنی بیگمات کے اثاثے بھی ظاہر کریں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے کہاکہ سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کو بطور چیف جسٹس معطل کیا گیا تھا اس کیس کے حقائق جسٹس افتخار محمدچوہدری کے مقدمہ سے یکسر مختلف ہیں۔ انہوںنے کہاکہ درخواست گزار جسٹس فائز عیسیٰ ایف بی آرکی کاروائی کو بدنیتی قرار دیکر نظر ثانی کی بنیاد بنارہے ہیں،جو دستاویزات نظر ثانی کی بنیاد ہیں ان پر دلائل دینا میرا حق ہے، میںعدالت کے سوالوںکا جواب دے رہا ہوں اور کہا جارہا ہے کہ وقت ضائع کر رہا ہوں۔ انہوںنے کہاکہ جن دستاویزات کا حوالہ دے رہا ہوں وہ الفاظ ایف بی ار رپورٹ کے نہیں ہیں جبکہ قواعد کے مطابق سپریم کورٹ کے بنچ کو والات پوچھنے کا اختیار حاصل ہے،سپریم کورٹ بعض حقائق کی پڑتال کیلئے بیان حلفی بھی مانگ سکتی ہے۔انہوںنے کہاکہ عدالت نے مجھ سے تین سوالوں کے جواب مانگے تھے اوروہ تین سوالات ہی سارے کیس کی بنیاد ہیں،اگردرخواست گزار ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ انکے جواب دیدیں تو تنازعہ حل ہو سکتا ہے۔انہو ں نے کہاکہ عدلیہ کی آزادی ججوں کے احتساب سے مشروط ہے، ایک جج کے اہلخانہ کی آف شور جائیدادوں کا کیس سامنے آیا ہے،اگرچہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس کالعدم ہو گیا ہے لیکن تنازع تو اب بھی برقرار ہے۔ انہوںنے کہا کہ عدلیہ کے عوام میں اعتماد کی بحالی کیلئے ضروری ہے کہ یہ تنازع ختم ہو، اور اس تنازع کے حل کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل ہی متعلقہ فورم ہے۔ انہوںنے کہاکہ فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میں سپریم جوڈیشل کونسل کو کوئی ہدایت نہیں دی ہے ، سپریم کورٹ میں کیس زیر سماعت ہونے کی بناء پرایف بی آر نے اس معاملے میں کچھ نہیں کیا ہے اوریہ بھی تو فرض کیا جا رہا ہے کہ یہ ایف بی آر کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کے فیصلے میں کسی غلطی کی نشاندہی نہیں کی جا سکی ہے، فیصلے میں قانونی غلطی ہو تو بھی نظر ثانی نہیں ہو سکتی ہے، سپریم کورٹ کا کوئی حکم ایف بی آر پر اثر انداز نہیں ہواہے ،انہوںنے عدالت کو آگاہ کیا کہ وفاقی وزیر قانون وانصاف، فروغ نسیم نے آج دلائل کے لیے پیش ہونا تھا،لیکن کمر میں تکلیف کے باعث انہوں نے کل پیش ہونے کی اجازت مانگی ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ وہ اپنے دلائل تحریری طور پر جمع کروا دیں ،دوران سماعت پاکستان بار کونسل کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ایف بی آر کی رپورٹ عبوری نوعیت کی ہے، جس کے خلاف اپیلیں متعلقہ فورم پرہی دائر کی جاسکتی ہیں، ایف بی آر کی رپورٹ کو حتمی شکل اختیار کرنے تک اس حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل میں کوئی کاروائی نہیں کی جاسکتی ہے ، یاد رہے 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ نے اپنے مختصر حکم نامہ میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا تاہم 10 میں سے 7 ججوں نے مختصر حکم نامے میں پیرا گراف 3 سے 11 کے ذریعے ریفرنس کو تو کالعدم قراردیا تھا لیکن فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور انکے بچوں کی بیرون ملک جائیدادوں میں استعمال ہونے والی رقم کی تحقیقات کرتے ہوئے اس کی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے رکھنے کاحکم جاری کیا تھا،جس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، محترمہ سیرینا عیسیٰ، بلوچستان بار ایسوسی ایشن، سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن، پنجاب بار کونسل، کوئٹہ بارایسوسی ایشن، پی ایف یو جے اور سینئر قانون دان عابد حسن منٹو وغیرہ نے نظرثانی کی یہ درخواستیں دائر کی تھیں۔ دریں اثناء پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین، خوشدل خان نے جسٹس قاضی فائز کیخلا ف دائر صدارتی ریفرنس سے متعلق مقدمہ میں نظر ثانی کی درخواستوں پر آنے والے فیصلے کو قانون وانصاف کی فتح قرار دیا ہے۔ انہوں نے پیر کے روز جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ،سرینا عیسیٰ اور وکلاء تنظیموں کی نظر ثانی کی درخواستیں منظور کرکے آئین کی بالا دستی ، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے اصولوں کو مضبوطی بخشی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ مستقبل میں آزاد اور خود مختار ججوں کو انتظامیہ یا دیگر اداروں کی جانب سے حملوں سے محفوظ رکھے گا،ساری قانون دان برادری اس فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے اور یہ ہم سب کی مشترکہ فتح ہے۔
kk