• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منظور رضی

اس مرتبہ پھر یکم مئی 2021ماہ رمضان اور منحوس و با کورونا کے دوران منایا جا رہا ہے اور وہی داستان ظلم و ستم آج بھی جاری ہے جو آج سے ٹھیک 135 سال قبل امریکہ کے صنعتی شہر شکاگو میں جاری تھا۔ پاکستان میں بھی تبدیلی سرکار آ گئی ہے، تین سال ہو رہے ہیں ہماری جدوجہد جاری ہے حکمرانوں کی اپنی اجارہ داری جاری ہے۔ خیر ہم یوم مئی کے موقع پر شرکا کو 1886کے محنت کشوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے، ان کی یاد کو تازہ دم کرنے کیلئے، ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر شاید کچھ حاصل کر سکیں جنہوں نے کہا تھا کہ حاکمو غریب انسانوں کی آواز بلند ہونے دو نہیں تو پھر ان کی تلوار میں بلند ہوں گی۔ اسپانز)

یکم مئی یا پھر یوم مئی دنیا بھر کے محنت کشوں کا عالمی دن یا پھر عالمی تہوار ہے۔ اس دن کو دنیا بھر کے محنت کش عوام 1886 ء شکاگو کے ان شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے دنیا بھر میں جلسے جلوس ریلیاں اور سیمینار منعقد کر کے مناتے ہیں جنہوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر 8گھنٹے اوقات کار مقرر کروائے تھے۔ مظلوموں، محنت کشوں، محکوموں اور غلاموں کی یوں تو بڑی طویل اور صبر آزما جدوجہد صدیوں پر محیط ہے جب سے دنیا تشکیل پائی ہے یہ کشمکش جاری ہے اور جب پہلی مرتبہ زمین پر چند طاقتور لوگوں نے لکیریں کھینچ کر اپنے حق ملکیت کا دعویٰ کرنا شروع کردیا تھا اور کمزور لوگوں پر ظلم کر کے طاقت کے زور پر انہیں اپنا غلام بنا لیا تب ہی سے دنیا میں طبقاتی فرق پیدا ہو گیا تھا۔ 

اس وقت طاقتور لوگ جبر کر کے غلاموں، مظلوموں، محکوموں اور محنت کشوں سے جبری مشقت لیتے تھے، اوقات کار کا تعین بھی نہ تھا لیکن 18اٹھارویں اور 19صدی میں تقریباً مزدور طبقہ بھی منظم ہونا شروع ہو گیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب صنعتی ترقی ہو رہی تھی، بھاپ سے چلنے والے انجن اور کارخانے مشینی دور میں داخل ہو رہے تھے۔ بڑے کم معاوضے پر مزدوروں سے بیگار لی جاتی تھی۔ کارل مارکس کے نظریات بھی پھیل رہے تھے۔

محنت کشوں کے کوئی اوقات کار نہ تھے نہ ہی کوئی قانون تھا۔ رات گئے تک کام کرنا پڑتا تھا۔ حادثے اور موت کی صورت میں کوئی معاوضہ نہ تھا۔ یورپ میں نئی نئی صنعتیں لگ رہی تھیں، سائنس بھی ترقی کر رہی تھی، کارخانوں کا جال بچھایا جارہا تھا، مزدور طبقہ ابھر رہا تھا اور انجمن سازی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سب سے پہلے برطانیہ میں مزدوروں نے جدوجہد شروع کی اور یونین بنائی فیڈریشن بنائی۔ اس سے قبل بھی مزدور جدوجہد کرتے رہے مگر شکاگو ان سب میں پیش پیش رہا۔

امریکہ جس کے ایک شہر میں اس تحریک نے جنم لیا آج وہی امریکہ سامراج بن کر دنیا میں دندنا رہا ہے اور محنت کشوں کا دشمن نمبر ایک بن کر دنیا میں دہشت گردی، لوٹ مار، اسلحہ کی منڈی، نیو ورلڈ آرڈر، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک،ڈبلیو ٹی او کے تحت اپنے احکامات کے ذریعے چھوٹے، غریب، پسماندہ اور ترقی پذیرممالک پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ آج سرمایہ دارانہ نظام انسانوں کی بھلائی کے لئے کوئی بھی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دے رہا ہے۔ 

آج سرمایہ دارانہ جاگیردارانہ نظام اپنے عروج پر پہنچ کر زوال پذیر ہے آج دنیا کے غریب ملکوں کے عوام کو بھوک، غربت، جہالت، بیماری، بے روزگاری اور مہنگائی سے نجات دلانے کے لئے ملکی حکمرانوں سمیت عالمی سامراج کے پاس عوام کے لئے خوشحالی لانے کے لئے، انہیں غربت کی دلدل سے نکالنے کا کوئی واضح پروگرام نہیںہے۔

آج عالمی سرمایہ داری نظام اپنی آخری اور بھیانک شکل میں عوام کو بدحالی کی طرح دھکیل رہا ہے لیکن اسی سامراجی ملک میں آج سے ٹھیک 135 سال قبل ایسے جوشیلے انقلابی نوجوان مزدور اور سیاسی رہنما پیدا ہوئے تھے جنہوں نے شکاگو میں پہلی مکمل ہڑتال کر کے اپنی قیمتی اور پیاری جانوں کا نذرانہ دے کر دنیا کی مزدور تحریک کو ایک نیا رخ نیا موڑ دیا تھا اور اپناخون دے کر محنت کش طبقہ کا سر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فخرسے بلند کر دیا تھا۔

انہوں نے اس وقت کے حکمرانوں، مل مالکوں، سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ ظالم حاکموں ہمیں بھی زندہ رہنے کاحق دو، ہم بھی انسان ہیں، ہمارے بھی اوقات کار مقرر کرو، ہماری تنخواہوں میں اضافہ کرو، ہمارے مطالبات پورے کرو۔ یہ نعرے لگاتے ہوئے مزدور جلوس کی شکل میں مشہور زمانہ (HAY) مارکیٹ کی جانب بڑھ رہے تھے، وہ نعرے لگا رہے تھے کہ دنیا کے مزدورو ایک ہو جاؤ، وہ بلا رنگ و نسل و مذہب ایک تھے، اپنے حقوق اور مطالبات کی بات کر رہے تھے۔ 

پورا صنعتی شہر شکاگو جام ہو گیا تھا، ملوں اور کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند ہو گیا تھا۔ دنیا میں یہ پہلا موقع تھا جب محنت کرنے والوں نے اپنے اتحاد کے ذریعے علم بغاوت بلند کر کے مکمل ہڑتال کر دی تھی اور پھر یکم مئی 1886کو صبح کے اخبار میں کسی گمنام صحافی نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اخبار کے صفحہ اول پر مزدورں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا جو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ’’مزدورو تمہاری لڑائی شروع ہو چکی ہے، فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا آگے بڑھو اپنے مطالبات منوانے کے لئے اپنے اوقات کار کے لئے جدوجہد جاری رکھو، حاکموں کو جھکنا پڑے گا جیت اور تمہاری ہوگی، ہمت نہ ہارنا متحد رہنا اس میں تمہاری بقاء اور اس میں تمہاری فتح ہے۔‘‘

صحافی کی اس تحریر نے محنت کشوں میں مزید جذبہ اور ابھار پیدا کر دیا اور انہوں نے زور دار نعرے کے ساتھ 8گھنٹے اوقات کار کا مطالبہ کر دیا اور یوں پہلی مرتبہ 24 گھنٹوں کو کچھ اس طرح تقسیم کیا گیا کہ ہم 8گھنٹے کام کریں گے، 8گھنٹے آرام کریں گے، 8گھنٹے اپنے اہل خانہ اور بیوی بچوں میں گزاریں گے۔

حکمرانوں، مل مالکوں، سرمایہ داروں کو محنت کشوں کا یہ نعرہ اور اتحاد پسند نہ آیا اور انہوں نے مزدوروں کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، نہتے کمزور اور پرامن محنت کشوں کو لہولہان کر دیا گیا۔ شکاگو کی سڑکوں پر مزدور کا خون بہنے لگا، محنت کشوں کا امن کا پرچم خون سے سرخ ہو گیا۔ ایک محنت کش کی قمیض لہو سے تر ہوگئی پھر انہوں نے لہو میں ڈوبے ہوئے سرخ پرچم کو ہی اپنا پرچم بنا لیا اور فیصلہ کیا کہ ہم اس وقت تک کام پر واپس نہیں جائیں گے جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کر لئے جاتے۔ سرخ پرچم ہی اب ہمارا پرچم ہوگا۔ 

اس موقع پر محنت کشوں کے سرکردہ رہنماؤں فشر اینجل، پیڑسنز اور اسپائیز نے مزدوروں سے خطاب کرتے ہوئے حکمرانوں اور مل مالکوں کو للکارا تھا۔ آخرکار حکمرانوں نے محنت کشوں کے مطالبات تسلیم کئے اور یوں پہلی مرتبہ 8گھنٹے اوقات کار کو تسلیم کیا گیا۔ بعد میں حکمرانوں نے مزدورں کے 7سات سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کر کے ان پر جھوٹا مقدمہ بنایا کہ انہوں نے جلسہ میں بم چلایا تھا 4 رہنماؤں کو سزائے موت دے کر پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا گیا اور باقی تین رہنمائوں کو رہا کر دیا گیا۔ 

یہ عظیم مزدور رہنما دنیا سے تو چلے گئے مگر اپنا نام اور اپنا کام اور اپنی تحریک چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہو گئے۔ دنیا بھر میں بعد ازاں محنت کش اپنی جدوجہد کے ذریعے کئی تبدیلیاں لائے اور مراعات حاصل کیں اور روس میں انقلاب برپا کیا۔ یورپ میں تو اب بھی 5اور 6 گھنٹے اوقات کار ہیں جبکہ ہمارے ملک میں آج بھی اوقات کار 8گھنٹے کے بجائے 12اور 16گھنٹے ہیں۔ پاکستان میں حکمرانوں، سرمایہ داروں اور فرقہ پرستوں نے مزدوروں کو تقسیم در تقسیم کر دیا ہے۔ آج پاکستان میں مزدور سیاسی جماعتوں کے علاوہ مذہب، فرقہ، زبان، قومیت اور علاقے کے نام پر تقسیم ہو چکے ہیں۔ ٹریڈ یونین تحریک کمزور پڑ گئی ہے بلکہ اب تو دم توڑ رہی ہے۔

آج بھی پاکستان کی معیشت رو بہ زوال ہے۔ تبدیلی سرکار نے نہ ایک کروڑ ملازمتیں دیں اور نہ ہی 50لاکھ گھر بنا کر دیئے بلکہ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کیا۔ ہزاروں کو کچی آبادیوں سے بے دخل کر کے بے گھر کردیا گیا ہے۔ قومی اداروں کی خرید وفروخت جاری ہے۔ پاکستان ریلوے سمیت پاکستان اسٹیل، پی آئی اے، سوئی گیس، KESC, PTCL سمیت PTV ریڈیو پاکستان ، ایئر پورٹ ،قومی شاہراہیں، پوسٹ آفس گروی رکھ کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک WTO کے احکامات کے تحت فروخت کئے جارہے ہیں ۔

مہنگائی، بے روزگاری، بیماری اور کو رونا نے پاکستان کے عوام سمیت محنت کشوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنے منشور میں محنت کشوں اور کسانوں کیلئے مخصوص نشستیں نہیں رکھی ہیں ۔ اس لئے صوبائی، قومی اسمبلی اور سینٹ میں ہماری کوئی آواز نہیں ہے ۔ضروری ہے کہ ہم شکاگو کے محنت کشوں کا راستہ اختیار کر کے اپنی جدوجہد تیز تر کر یں اور انہیں خراج عقیدت پیش کریں۔

چند اشیائے ضرورت کوتر ستے ہوئے لوگ

آخری جنگ کا اعلان تو کر سکتے ہیں

تازہ ترین