• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے 10 رکنی لارجر بینچ کے اپنے ایک سینئر جج جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر اپنے سابقہ فیصلے کو کالعدم قرار دینے اور سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے جسٹس فائز عیسیٰ کیس کے حوالے سے حکومتی قیادت کے دبائو ڈالنے کے الزامات نے ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے نام غیر ملکی جائیدادوں کی ایف بی آر سے چھان بین کے حکم کے خلاف دائر کی گئی نظرثانی کی اپیلیں 4 کے مقابلے میں 6 کی اکثریت سے منظور کی گئیں اور اس سلسلے میں ایف بی آر کی قانونی کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال جون میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے فیصلے میں عدالت نے ایف بی آر کو جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے نام غیر ملکی جائیدادوں کی چھان بین کا حکم دیا تھا۔

ابھی سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کی بازگشت گونج ہی رہی تھی کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے حوالے سے سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے حکومت پر سنگین الزامات اور انکشافات نے ملکی سیاست میں تلاطم پیدا کرکے حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ بشیر میمن نے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف مبینہ سازش کے بارے میں انکشاف کیا کہ وزیراعظم عمران خان سمیت شہزاد اکبر، فروغ نسیم اور اعظم خان کی جانب سے اُن پر جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ایف آئی اے میں منی لانڈرنگ کیس کے اندراج کیلئے دبائو تھا جبکہ اپوزیشن سیاستدانوں جن میں شہباز شریف اور مریم نواز کے علاوہ حمزہ شہباز، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، رانا ثناء ﷲ، جاوید لطیف، خرم دستگیر، خورشید شاہ، نفیسہ شاہ اور مصطفی نواز کھوکھر سمیت حکومت کے خلاف بات کرنے والی تمام سیاسی شخصیات شامل ہیں، کے خلاف انکوائری اور اُنہیں گرفتار کرنے کیلئے وقتاً فوقتاً حکومت کی طرف سے دبائو ڈالا جاتا رہا۔ بشیر میمن نے یہ بھی انکشاف کیا کہ جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیو اسکینڈل اور خاتونِ اول کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے کی وجہ سے مریم نواز کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کیلئے بھی اُن پر دبائو ڈالا گیا مگر میرے عدم تعاون پر وزیراعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا حوالہ دے کر مجھے باور کرانے کی کوشش کی کہ سعودی عرب میں کوئی بھی محکمہ اُن کے احکامات کی حکم عدولی نہیں کرتا جبکہ تم مجھے آئین کا حوالہ دیتے ہو۔ واضح رہےکہ وزیراعظم سمیت فروغ نسیم اور شہزاد اکبر نے بشیر میمن کے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ بشیر میمن کو جسٹس فائز عیسیٰ کے معاملے میں وزیراعظم یا ان سے ملاقات کیلئے نہ کبھی طلب کیا گیا اور نہ ہی کبھی ان پر اس سلسلے میں دبائو ڈالا گیا۔

پاکستان کی لیگل کمیونٹی میں جسٹس فائز عیسیٰ نہایت قابل احترام اور اصول پسند ججکے طور پر جانے جاتے ہیں اور سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان پر قائم ہونے والا صدارتی ریفرنس سیاسی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا اور وہ اس آزمائش سے سرخرو ہوکر نکلے۔ بشیر میمن بھی اچھی شہرت کے حامل ہیں جو ڈی جی ایف آئی اے بننے سے قبل آئی جی آزاد کشمیر کے علاوہ انٹیلی جنس بیورو میں جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر تعینات رہے۔ ان کی اچھی شہرت اور کارکردگی کی بنیاد پر اُنہیں 2017ء میں ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے تعینات کیا گیا تاہم حکومتی دبائو کے نتیجے میں انہیں اپنا استعفیٰ ریٹائرمنٹ سے قبل ہی دینا پڑا۔ بعد ازاں حکومت نے ان کی پنشن بھی روک لی جس کیلئے انہیں ہائیکورٹ کا سہارا لینا پڑا اور ہائیکورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دیا مگر اس کے باوجود ابھی تک ان کی پنشن جاری نہیں کی گئی جس سے حکومتی عناد کی بو آتی ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل بشیر میمن نہیں چاہتے تھے کہ اُن کا انٹرویو منظر عام پر آئے جو یقیناً کیس پر اثر انداز ہوسکتا تھا مگر انہوں نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ انٹرویو کیس کا فیصلہ آنے کے بعد منظر عام پر لایا جائے لیکن انٹرویو کے بعد بشیر میمن پر پی ٹی آئی ترجمانوں کی جانب سے تضحیک آمیز تنقید کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی ان کی کردار کشی کئے جانے کے علاوہ اُن پر کرپشن کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بشیر میمن کے عائد کئے گئے الزامات سنگین نوعیت کے ہیں جس میں ریاست کے ایک جج کیخلاف کارروائی کیلئے حکومتی ادارے کو مجبور کیا گیا۔ گوکہ بشیر میمن کے لگائے گئے الزامات پر کوئی گواہی، شواہد یا ثبوت سامنے نہیں آئے ہیں مگر بشیر میمن کے اعتماد اور لہجے سے لگتا ہے کہ ان الزامات میں کچھ تو حقیقت ضرور ہے اور حکومتی تردید مسئلے کا حل نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بشیر میمن جنہوں نے آواز بلند کی ہے، ان پر مقدمات قائم کرکے حق و سچ کو نہ دبایا جائے۔ آج قوم کی نظریں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف اٹھ رہی ہیں اور قوم کو شاید توقعہے کہ وہ اس سنجیدہ معاملے پر از خود نوٹس لے کر ایک جوڈیشل کمیشن کا اعلان کریں گے تاکہ حقیقت سامنے آسکے اور مستقبل میں کوئی عدلیہ یا ججز کے خلاف اس طرح کی سازش کا سوچ بھی نہ سکے لیکن اگر ایسا نہ کیا گیا تو کل کسی اور فائز عیسیٰ کو اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا جواب اپنی فیملی کے ساتھ کٹہرے میں کھڑے ہوکر دینا پڑے گا۔

تازہ ترین