محمد نسیم
تاریخ شاہد ہے کہ جہاں جہاں دریا بہتے ہیں، وہاں تہذیب و ثقافت اپنی باقیات کی نشانیاں چھوڑ جاتی ہیں جیسے نینو اور بابل کی گمشدہ تہذیبیں دریائے نیل کی پہچان بتائی جاتی ہیں جبکہ ہمارے ملک کی تہذیب و ثقافت کی عکاسی صدیوں سے رواں رواں دریائے سندھ کی مرحون منت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دریائے سندھ کہاں اور کدھر سے اپنی شناخت بناتا ہے۔
دریائے سندھ کا منبع تبت کی ایک جھیل مانسرور ہے جس کا پانی بھارت اور کشمیر سے گزرتا ہوا پاکستان کے صوبہ پختون خواہ میں داخل ہوتا ہے جہاں اسے ’’اباسین‘‘ کہا جاتا ہے جس کا مطلب دریائوں کا باپ ہے۔ دریائے سندھ کو شیر دریا بھی کہا جاتا ہے۔ اس طرح یہ سیکڑوں کلومیٹرز کا سفر طے کرنے اور ان سلسلوں کو کاٹنے کے بعد پہاڑوں سے گزرتا ہوا کالا باغ کے مقام پر میدانی علاقے میں داخل ہوتا ہے جہاں ایک قدرتی ڈیم کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں سے صوبہ پنجاب سے گزرتا ہوا سندھ میں داخل ہوتا ہے اور جوں جوں بحیرئہ عرب کے نزدیک تک پہنچتا ہے، اس کی رفتار سست ہوجاتی ہے۔
اس طرح اس دریا کا طویل سلسلہ اور سفر ٹھٹھہ کے مقام ڈیلٹا بناتا ہوا بحیرئہ عرب میں جاگرتا ہے۔ قدرت کا کمال دیکھئے بحیرئہ عرب کو بھی اپنے توازن کو برقرار رکھنے کیلئے دریائے سندھ کے پانی کا انتظار رہتا ہے۔ پانی سمندر میں گرتا ہے، وہ سمندر کی ضرورت ہے جو سمندر میں مل جانے سے بھی ضائع نہیں ہوتا بلکہ یہ موسمی تغیرات کے باعث سورج کی تپش سے بخارات بن کر اڑ جاتا ہےاور بادلوں کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور ہوا کے دوش پر جب اڑتے ہوئے بادل ہمالیہ کے پہاڑوں سے ٹکراتے ہیں تو کہیں مینہ برستا ہے اور کہیں برفباری ہوتی ہے جس سے یہ پہاڑ برف سے ڈھک کر سفید پوش ہوجاتے ہیں۔
اس طرح مسلسل برف باری سے وسیع گلیشیئر وجود میں آجاتے ہیں اور جب سورج کی حدت سے درجہ حرارت بڑھنے سے یہ گلیشیئرز پگھلتے ہیں تو پانی بن کر بہنے لگتے ہیں جس سے دریائے سندھ کی سطح آب میں اضافہ ہوتا ہے جو لوگوں کی پیاس بجھاتا ہوا میدانوں، ندی، نالوں اور کھیتوں کو سیراب کرتا ہوا زندگی کو رواں دواں رکھتا ہے۔
تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جہاں سے بھی یہ دریا گزرتا ہے، وہاں تہذیب و ثقافت کا اپنا ایک رنگ و روایت کی مختلف داستانیں رقم ہوچکی ہیں جیسا کہ پہاڑی علاقوں میں رہنے والے انتہائی جفاکش اور محنتی ہوتے ہیں جبکہ میدانوں میں سکونت پذیر وسیع ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ تاریخی حقائق یہ ہیں کہ جس طرح دریائے نیل اور نینو اور بابل کی تہذیب و ثقافت کے آثار ملتے ہیں، اسی طرح دریائے سندھ کو صدیوں سے رواں دواں نہ صرف وادی مہران کے لوگوں پر مہربان ہے، دراصل دریائے سندھ کا صدیوں سے تواتر سے بہنا نہ صرف تہذیب پاکستان کی ایک کہانی ہے بلکہ اس میں وادی مہران کا عکس نظر آتا ہے۔