”رلّی“ سندھی ثقافت کی ایک امتیازی شناخت ہے ۔ اسے انگریزی زبان میں ”کوئلٹ“ جبکہ سندھی میں ”رلی“ یا ”رلّی“ کہا جاتا ہے۔ رلی ّصدیوں سے سندھ کی ظاہری علامات میں سے ایک ہے، جس کو دیکھتے ہی اس خطے کی منفرد تاریخ کا تصور ذہن میں اجاگر ہوتا ہے۔ یہ کپڑے کے مختلف ٹکڑوں کو’’ اقلیدسی‘‘ شکل میںنفاست سے کاٹ کے آپس میں جڑی ہوئی انسانی قد سے لمبی دبیز چادر ہوتی ہے۔
اسے مختلف تہوں میں سی کر، اوڑھنے یا بچھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ رلّی ،وادی مہران کی تاریخ کا ایسا حسین تسلسل بھی ہے، جو اس سرزمین پرہر دور میں مختلف صورتوں میں نظر آتا ہے اوراس خطے کےہزاروں سال قدیم تہذیب و تمدن سے اپنے تعلق کوظاہر کرتا ہے۔پانچ ہزار سال قدیم ’’موئن جو دڑو‘ ‘(جسے اب قدیم آثار کے ماہرین کی متفقہ رائے کے مطابق’ ’مہین جو دڑو‘‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ ) کے آثار سے بھی’ ’اجرک‘‘ اور’ ’رلّی‘ ‘کے پرنٹ اور ڈیزائن ملے ہیں، جن کا تسلسل ہمیں’ ’مہین‘‘ کی تہذیب کے بعدشروع ہونے والی تمام تہذیبوں، بشمول ’’لاکھین جو دڑو‘ ‘(جس کے آثار موجودہ سکھر کے قریب واقع ہیں ) اور ’’چاہین جو دڑو‘ ‘(جس کے آثار موجودہ نواب شاہ اور سکرنڈ کے درمیان واقع ہیں ) میں بھی ملتے ہیں۔
رلّیّ کی تین تہیں (لیئرس) ہوتی ہیں۔ پہلی تہہ سادہ کپڑے پر مشتمل ہوتی ہے، جو عموماً ایک ہی رنگ کا ہوتا ہے، جو سندھی میں ’تر‘ کہلاتا ہے، دوسری تہہ رلّی کا اہم حصہ ہوتی ہے، جس پر اصل ڈیزائن بنا ہوتا ہے، اسے ’ ’پڑ‘ ‘ کہا جاتا ہے۔ اسی تہہ کی تیاری سب سے زیادہ محنت طلب کام ہوتا ہے۔ تیسری تہہ ان دونوں کے درمیان ہوا کرتی ہے، جو’ ’لیہہ‘ ‘کہلاتی ہے، جسے کپڑے کے ٹکڑوں کو سیدھا کر کے ان سے بھرکر رلّیّ کی ضخامت میں اضافہ کیا جاتا ہے۔اس تہہ میں استعمال ہونے والے کپڑے کے ٹکڑوں کو ’’پور‘‘ کہا جاتا ہے۔ رلّیّ ّسازی کے بارے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ گھر میں بے کار پڑے ہوئے کپڑوں کو کارآمد بنانے کا ذریعہ بھی ہے۔
جس گھر میں رلّیاں بنتی ہیں، اس گھر میں کسی بھی مسترد کیے ہوئے لباس یا کپڑے کے ٹکڑوںکو فضول سمجھ کر ضائع نہیں کیا جاتا، بلکہ اسے رلّی کے ’’پور ‘‘میں استعمال کرنے کے لیے محفوظ رکھا جاتا ہے۔رلّی کپڑے کی’’ کترنوں‘‘کو جوڑنے کا ہنر بھی ہے۔سندھ کےدیہی علاقوں میںبچے کی پیدائش یعنی ’’مہد‘‘ سے لے کر مرنے یعنی ’’ لحد‘‘ میں پہنچنے تک، رلّی اور اس کا ساتھ نہیں ٹوٹتا۔بچہ کی پیدائش سے قبل ننھے مہمان کے لیے اس کے مختصرسے جسم کی مناسبت سے شرٹس اور لنگوٹ کے ساتھ چھوٹی چھوٹی رلّیاں بھی بنائی جاتی ہیں۔
یہ فریضہ گھر کی بڑی بوڑھیاں، نانیاں، دادیاں، پھوپھیاں، خالائیں اور دیگر قریبی رشتہ دارخواتین انجام دیتی ہیں۔ان چھوٹی چھوٹی رلّیوں کو ’ ’رلکو‘ ‘کہا جاتا ہے۔ بچے کے جنم لینے کے ساتھ ہی اسے رلّی میں لپیٹا جاتا ہے۔وہ جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے، اس کے باقی کپڑوں کی طرح اس کے ’رلکے‘ کا سائز بھی بڑا درکار ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کے مطلوبہ سائز کی رلچی (رلکہ) تیار کی جاتی ۔ جب بچہ بن بلوغت میں پہنچتا ہے، تو اوڑھنے سے لے کر بچھانے تک رلّی اس کے استعمال میں رہتی ہے۔جب وہ اپنی زندگی کا سفر مکمل کرکے دوسری دنیا کی جانب محو سفر ہوتا ہےتو مختلف رنگوں سے آراستہ رلّی اس کے بے جان جسم پر ڈالی جاتی ہے۔
رلّی سازی کا شمار گھریلو دست کاری میں کیا جاتا ہےاور خواتین اس میں مہارت رکھتی ہیں۔ سندھ میں مختلف برادریاںرلّی سازی کے فن میں مہارت کی وجہ سے اپنی منفردشناخت رکھتی ہیں۔ٹنڈو الہ یار اور ٹنڈو محمد خان کے چوہان، عمرکوٹ کے پلی اور جوگی، بدین اور ٹھٹہ کے سامی (خانہ بدوش) اور کچھی سومرا برادری کے مرد و خواتین اس کام میں ماہر ہیں۔ صحرائے تھر کے مختلف علاقوں میں میگھواڑ برادری کی خواتین اس ہنرمیں معروف ہیں اور ان کے کام کرنے کا انداز بھی سندھ کے دیگر شہروں کے مقابلے میں جداگانہ ہے۔
دیگر علاقوں میں رلّی کی تیاری کے وقت ایک جانب ڈیزائن والا کپڑا لگایا جاتا ہے، جب کہ دوسری طرف سادہ کپڑا جوڑاجاتا ہے۔مگر تھر میں دونوں جانب کپڑے کے ٹکڑوں سے ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔ اس قسم کی رلیوں میں اوپراور نیچے والی تہیں ایک جیسی ہوتی ہیں اور یہاں رلی کے اوپر کپڑے کے ٹکڑوں کی مدد سے ڈیزائن بنانے کی بجائےسوئی اور دھاگے سےکشیدہ کاری کی جاتی ہے۔ سندھ میںبننے والی رلّیوں کی تین اہم اقسام عام ہیں۔ جن میں’ ’ٹک‘‘ ،’ ’ٹکرین‘‘ اور ’’مکے‘‘ والی رلیاں شامل ہیں، البتہ مختلف علاقوں میں رلی کی اقسام کو مختلف ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔
یہ ایک اور دلچسپ امر ہے کہ یہاں کے مختلف علاقوں میں بننے والی رلیوں میں اقلیدسی ڈیزائنوں کے اندر، پرندوں، جانوروں، پھلوں، درختوں وغیرہ کے پیٹرن میں شامل رکھا جاتا ہے، جو نہ صرف اس علاقے کے سماجی پس منظر کو واضح کرتی ہیں، بلکہ ان ہنرمندوں کے ذہنی رجحان کی بھی نشان دہی کرتی ہیں۔ مثلاً تھر میں بننے والی رلیوں میں مور، ہاتھی، ہرن اور چاند کی شبیہ پر مبنی ڈیزائن بنائے جاتے ہیں، خیرپور اور اس کے گردونواح میں تیار ہونے والی رلیوں میں کھجور کے درخت، اسکول کی تختی، اونٹ، جھولے اور کہیں کہیں مور کی شبیہ کو بھی رلّی کے ڈیزائنوں میں شامل کیا جاتا ہے۔
سانگھڑ ضلع میں’ ’اچھڑو تھر‘ ‘میں بننے والی رلیوں میں چاند، ستارے، پھول، اونٹ وغیرہ کی ڈرائنگز بنائی جاتی ہیں۔یہ بات بھی حیران کن ہے کہ دست کار خواتین کو ان تمام اشیاء کی شبیہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھنے اور کام کے دوران ان کے اسکیچزسامنے رکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔یہ کام انتہائی وقت طلب ہے۔ اعلیٰ قسم کی رلیوںکی تیاری میں ایک سے دو برس لگتے ہیںجب کہ ان پر لاکھوں روپے لاگت آتی ہے،اس وجہ سے ان کی قیمت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔اس قسم کی رلی کی حالیہ ہ قیمت ایک تا 5 لاکھ روپے ہے۔
اس کے مقابلے میںسادہ رلی ایک سے 5 ہزار وپے جب کہ اس سےذرا اچھے معیار کی رلی 5 تا 10 ہزار روپے میں دستیاب ہوتی ہے۔لیکن سندھ کے دست کاروں خاص طور سے خواتین ہنرمندوں کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ انہیں کبھی بھی اپنی محنت کا معقول معاوضہ نہیں ملتا۔وہ خواتین جوانتہائی عرق ریزی کے بعد ساری عمر میں دس سے 15 رلیاں بہ مشکل تیار کر تی ہیں۔ کشیدہ کاری سے رلیوں کی ڈیزائننگ کرتے ہوئے ان کی بینائی متاثر ہوجاتی ہے، انہیں رلّی کی مجموعی قیمت کا صرف 20 تا 25 فیصدمعاوضہ اجرت کی صورت میں ملتا ہے۔ باقی رقم رلی کو مارکیٹ تک پہنچانے والے مڈل مین، بروکر اور دکانداروں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔یوں اس فن کی سرکاری سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے رلی میں کپڑوں کے ٹکڑوں کی مدد سے رنگ بھرنے والوں کی اپنی زندگیاں خوشیوں کے رنگوں سے خالی اور بے رنگ ہی گزرتی ہیں۔
محکمۂ سیاحت و ثقافت، حکومت سندھ کی جانب سے کراچی میں اپریل 2017 ء میں دنیا کی پہلی ”رلّی نمائش اور رلّی سازی کے مقابلے “ کا انعقاد کیا گیا، جس میں سندھ بھر سے رلی بنانے والی دست کارخواتین کو، صوبائی دارالحکومت میں ثقافت اور فن کے بین الاقوامی مداحوں اور خریداروں کے سامنے پیش کر کے، نہ صرف ان غریب ہنرمندوں کی ہمت افزائی، مالی معاونت اور فن کی پذیرائی کا اہتمام کیا گیا تھا، بلکہ ان رلی بنانے والی ہنرمند خواتین میں سے مقابلہ جیتنے والی خواتین کو انعامات بھی دیے گئے تھے۔ لیکن یہ سب صرف تقریب تک ہی محدودد تھا، اس کے بعدانہیں محکمہ ثقافت یاسرکاری محکموں کی جانب سے یکسر فراموش کردیا گیا۔اگر حکومت اور محکمہ ثقافت کی طرف سے ان دست کار مرد و خواتین کے ساتھ یہی وتیرہ اختیار کیا جاتا رہے گا تورلی سازی کا ہنربھی قصہ پارینہ بن جائے گا۔