• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے جیسے سفید پوش لوگوں کیلئے جینا بہت مشکل ہوتا ہے‘ ہم نہ تو امیر ہیں نہ ہی غریب۔ معاشرہ ہمیں مڈل کلاس کہتا ہے ہم امیروں کی طرح خرچ نہیں کر سکتے لیکن قطار میں کھڑے ہو کر راشن لینا بھی ہمیں گوارا نہیں۔ لگتا ہے کہ مڈل کلاس کی بھی دو اقسام وجود رکھتی ہیں‘ لوئر مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس۔ مہینے کے شروع میں ہم اپر مڈل کلاس بن جاتے ہیں اور مہینے کے آخر میں لوئر مڈل کلاس۔ ہم لقمے گن کر تو نہیں کھاتے لیکن آٹا سستا لینا چاہتے ہیں‘ یوٹیلٹی سٹور اور حکومت کی جانب سے اتوار بازار اور رمضان بازار مڈل کلاس لوگوں کیلئے ایک ریلیف ہے۔ کچھ دن سے سوشل میڈیا پر رمضان بازاروں کی ویڈیوز دیکھ رہے ہیں کہ کیسے عام آدمی ایک کلو چینی اور دس کلو آٹے کے لئے تڑپ رہا ہے۔ ایک سفید پوشی کا بھرم تھا ہمارا جو اب شناختی کارڈ دکھا کر انگوٹھے کا نشان لگوا کر ایک کلو چینی دینے سے ٹوٹ رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی نے ہمارے چہرے سے ہماری سفید پوشی کا نقاب کھینچ لیا ہے۔

میں جمعہ کو رمضان بازار صرف یہ دیکھنے گیا کہ ویڈیوز اور تصاویر میں کتنی سچائی ہے‘ میں وہاں زیادہ دیر ٹھہر نہ سکا کیوںکہ وہاں ایک تماشہ لگا ہوا تھا اور تماشے میں عام آدمی کا مذاق اڑایا جا رہا تھا‘خواتین لائن میں لگی ہوئی تھیں‘ ایک ہزار کی شاپنگ کرنے پر چینی دی جا رہی تھی، اور وہ بھی ایک کلو۔ انگوٹھے کے نشان لے کر چینی کے پیکٹ تھمائے جا رہے تھے۔ مفلسی کا مذاق اڑایا جا رہا تھا- مجھے وہ دن بھی یاد آگیا جب رمضان بازار میں چینی کے پیکٹ اور آٹے کے تھیلے وافر مقدار میں موجود ہوتے تھے۔ شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے روزانہ کسی شہر میں رمضان بازار کا دورہ ہوتا۔ رمضان بازار کی چیزوں کی کوالٹی بہتر ہوتی۔ ایک دن میں 3 3 بازاروں کا دورہ بھی کیا گیا۔ بازار میں مرد و خواتین شہباز شریف کو دیکھتے اور ان کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے۔ ایک امید ایک سکون ہوتا کہ ہمارے پاس شہباز شریف جیسا شخص ہے جو ہمارا خیال رکھتا ہے ہمیں روزے کی حالت میں چینی کے ایک پیکٹ کیلئے خوار نہیں ہونے دیگا۔ شہباز شریف کو دیکھ کر ان کے آنکھوں میں ایک چمک آجاتی تھی۔

اب وہی آنکھیں آنسوئوں سے بھری ہیں موجودہ حکومت کو کوسنے دے رہی ہیں اور اپنے نجات دہندہ کا انتظار کر رہی ہیں- نجات دہندہ کب آئے گا اور ان کی زندگی میں وہی خوشیاں واپس لائے گا جو 3سال پہلے تھیں۔ امید کو ترستی آنکھیں انتظار میں ہیں کوئی تو ہو جو ان کی سفید پوشی کا بھرم لوٹا دے!

تازہ ترین