اطہر اقبال
پیارےبچو!یہ کہاوت ایسے موقع پر کہی جاتی ہے جب کسی شخص کے کارنامے کی دنیا جہاں میں دھوم مچی ہو، لیکن اس کے گھر والوں یا قریبی اعزا کی طرف سے اس کے کارنامے کی قدر نہ کی جائے۔ یہی کچھ ساجد کے ساتھ تھا۔ وہ کرکٹ کا بہترین کھلاڑی اوراپنے اسکول کی ٹیم کا کپتان بھی تھا۔ اس کی کپتانی میں اسکول کی ٹیم نے جتنے بھی میچ کھیلے، ان سارے میچوں میں اسے فتح یابی ہوئی۔ اخبارات میں بھی ساجد کے کارناموں کی روداد تصویروں کے ساتھ شائع ہوتی تھی۔
ایک دن کسی دوسرے اسکول سے ساجد کی ٹیم کا میچ ہوا ،حسب روایت اس کی کرکٹ ٹیم نے ہی یہ میچ جیتا۔ ساجد خوشی خوشی گھرآیا اور اپنے بڑے بھائی کو میچ جیتنے کی خوش خبری سنائی۔’’ساجد تمہیں مبارک ہو کہ تم نے میچ جیت لیا ،مگر پلیز تفصیلات بعد میں بتانا پہلے میرے ساتھ باہر چلو، کچھ خریداری کرنی ہے‘‘ ساجد کے بھائی نے اس کے میچ جیتنے پر خوشی کا اظہار نہیں کیا اور آسان و معمول کی بات سمجھ کر نظر انداز کردیا۔
ساجد نے منہ لٹکاتے ہوئے بھائی کے ساتھ باہر جانے کی تیاری شروع کر دی۔ تیار ہوتے وقت وہ سوچ رہا تھا کہ اسکول کےساتھیوں اور اخبارات میں اس کے کارناموں کے چرچے ہوتے ہیں جب کہ گھر میں بھائی سمیت دیگر لوگ اس خوش خبری کو سن کر خاص اہمیت نہیں دیتے۔
ایک دن اپنے ایک دوست سے ساجد نے اس بات کا تذکرہ کیا تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا ’’ساجد اس میں کون سی نئی بات ہے ‘‘۔’’کیا مطلب ‘‘؟ ساجد نے حیرت سے پوچھا۔’’ تم نے سنا نہیں ‘‘ گھر کی مرغی دال برابر ‘‘ہوتی ہے۔تمہارا کارنامہ گھر والوں کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا جب کہ باہر تمہیں اپنے کارناموں کی وجہ سے پذیرائی ملتی ہے ، اس لیے دل چھوٹا نہ کیا کرو۔دوست کی یہ بات سن کر ساجد بھی ہنسنے لگا۔