قومیں اپنے تاریخی اثاثوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں کیوں کہ ان کی صورت میں ان کا ماضی جھلکتا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنی تاریخ و ثقافت کی نشانیوں کی حفاظت نہ کرسکے۔ سندھ حکومت کی غفلت یا لاپروائی کی وجہ سے صوبے کے زیادہ تر تاریخی آثار قصہ پارینہ بنتے جارہے ہیں۔ اس کی ایک مثال ،نواب شاہ سے بیس کلومیٹر مغرب کی جانب نیو سکرنڈ شہر میں فتح آباد کا قلعہ ہےجس کی باقیات صرف کھنڈرات کی صورت میں ہی نظر آتی ہیں،ورنہ روئے زمین سے اس کا نام و نشان مٹ چکا ہے۔میر فتح علی خان تالپور نے 1784ء میں خیرپور میں میران تالپورکی حکومت کی بنیاد ڈالی اور خداآباد کو اپنا پایہ تخت بنایا ۔
وہ ایک مرتبہ نواب شاہ آئےتوآج جہاں نیو سکرنڈ شہر آباد ہے، وہاں ’’شکرڈھنڈ‘‘ نام کی ایک خوب صورت جھیل بہتی تھی۔ جھیل کے اطراف کے سحر انگیز ماحول ، حسین مناظر ، فرحت بخش آب و ہوا نے انہیںبہت متاثر کیا۔ میر فتح علی خان نے جھیل کے کنارے ایک شہربسا کر اس کی حفاظت کے لئے ایک قلعہ کی تعمیرکا بھی حکم دیا۔ اس شہر کو ان کے نام سے منسوب کیا گیاجب کہ قلعہ کا نام بھی شہر کے نام سے جانا جاتا تھا۔اس قلعہ کے دو دروازے تھے، ایک دروازہ شمال میں جھیل کی جانب کھلتا تھا۔میر فتح علی خان حکومتی ذمہ داریوں سے وقت نکال کراپنے اہل خانہ کے ساتھ اس قلعہ میں رہائش اختیار کرتے تھے۔
قلعہ کے اندرشہر کی حفاظت پر مامور سپاہیوں اور سرکاری اہل کاروں کی رہائش گاہیںتھیں۔ یہاںمسلمان اور ہندو ، دونوں مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتےتھے۔ آج بھی قلعہ کے کھنڈرات کے قریب ہندوؤں کا ایک پرانا مندربوسیدہ حالت میں موجود ہے، جس کی ایک حصے کی دیوار گر چکی ہے۔ ہندوؤں نے قیام پاکستان کے بعد اس مندر کی جانب توجہ کم کردی کیونکہ انہوں نے نیو سکرنڈ شہر کے مرکزی بازار میں اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لئے ایک نیا مندر تعمیر کرلیا تھا۔
قلعہ فتح آباد کی تباہی کے جو اسباب سامنے آتے ہیں ان میں سے ایک میران تالپور کا مذکورہ قلعہ کی حفاظت اور دیکھ بھال کے لئے توجہ نہ دینا جبکہ اس کی تباہی میں ماضی میں آنے والے طوفان ،سیلاب اور شدید بارشوں کے علاوہ محکمہ قدیم آثار اور حکومت کی عدم توجہی بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج قلعہ کا نام و نشان مٹ چکا ہےاور جو بچے کھچے آثار باقی ہیں،ان سےقلعہ کے پرشکوہ ہونے کا نشان ملتا ہے۔ ماضی کا فتح آباد شہر جس کا موجودہ نام سکرنڈہے، ایک بلند و بالاٹیلے پر قائم ہے۔
تیرھویں صدی ہجری کے اوائل میں تعمیر ہونے والا فتح آباد قلعہ صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے جب کہ اس کے قریب بہنے والی شکر ڈھنڈ جھیل بھی عدم وجود ہوچکی ہے لیکن اس کی مناسبت سے فتح آبادشہر کو ’’سکرنڈ‘‘ کے نام میں تبدیل کردیا گیا۔تالپور خاندان جو کہ سندھ کے حکمرانوں میں ان کا شمار ہوتا تھا اور ان کا لقب میر تھا جسے حرف عام میں رئیس یا بادشاہ کے طور پرجانا جاتا تھا لیکن سند ھ میں مشہور کہاوت ہے کہ (میرین کھی گھر مان لگی ) یعنی تالپور خاندان کی باہمی چپقلش اور ریشہ دوانیوں کا دشمنوں نے فائدہ اٹھایا اور ان کے خلاف سازش کرکے سندھ میں تالپور خاندان کے اقتدار کا چراغ گل کردیا۔
سندھ کے قدیم خطے میںلا تعداد تاریخی آثار بکھرے ہوئے ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ مٹتے جارہے ہیں۔ حکومت اور محکمہ ثقافت اربوں روپے سالانہ آمدنی کے باوجود ان کی طرف سے لاپروائی برت رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان آثار کو محفوظ کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔