• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک دفعہ شان الحق حقی نے پاکستان کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا:

’’کسی قوم کا یہ حال ایک دن میں نہیں ہوتا‘‘۔

دھوپ اور تازہ ہوا کو روکنے کی خاطر جو دروازے بند کرکے چھوڑ دیے جائیں ان میں چپکے سے دیمک سرایت کر جاتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ پوری عمارت کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ وہ جو ہماری نظر میں ہر برائی کا سبب تھے اور تسخیر کائنات کی منزلیں طے کرچکے ہیں اور ہم ابھی یہ طے کر رہے ہیں کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں۔ 74برس سے دریا کو ہاتھ پھیلا کر اپنے پاس بلا رہے ہیں۔

سارے مسلمان ملک فلسطینیوں کو لہولہان اور خاک ہوتے دیکھ رہے ہیں سب اپنی کرسی سنبھال رہے ہیں کہ کہیں جوبائیڈن ان کی طرف اشارہ نہ کردے۔ لفظوں کے تو صرف تابوت ہی رہ گئے ہیں۔ یاد رہے 1973میں گولڈامائرنے کہا تھا کہ ہماری کوششیں ہونی چاہئیں کہ ہم 70فیصد ملک پہ قابض ہو جائیں اور 30فیصد فلسطینی مسلمانوں دے کراُنہیں اقلیت بنادیں۔ ارے یہی سوچ تومودی کی ہے کہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جائے ۔ مگر وہ تو زائنسٹ یہودیوں کی طرح کیمرے کے سامنے آکر یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ ملک تو ہےہی یہودیوں کا ۔ القدس ہماری میراث ہے۔ وہ شخص جو اسرائیل کے الیکشن میں ہار گیا۔ وہی خاک و خوں میں فلسطینی مسلمانوں کو اس لئے لپیٹ رہا ہے کہ شاید اسے دوبارہ وزارتِ عظمیٰ مل جائے۔ جوبائیڈن بھی تو اسی سے بات کرتا ہے۔ فلسطین میں صرف مسلمان نہیں ہیں۔ عیسائی بھی کافی تعداد میں ہیں مگر مسلمان ہوں کہ عیسائی، خود کو فلسطینی مانتے اور کہتے ہیں۔ صہیونی اپنی توپوں کے دہانے کھول کر 74برس سے اس سچائی کو جھٹلا رہے ہیں کہ یہ ملک فلسطینیوں کا ہے۔انہوں نےہولوکاسٹ کے نتیجے میں، یورپ سے دیس نکالا ملنے پر، اپنی طاقت امریکہ کی حمایت کے باعث بڑھائی ۔ یہودیوں نے دولت اور جمعیت دونوں کو قوم بنانے پر صرف کیا اور ہمارے ہاںغیر سول ہوں کہ سیاسی لوگ، شداد کی جنت اپنے لئے بناتے رہے۔ اب تک بنا رہے ہیں۔ پنڈی کی ایک سڑک کے گرد اربوں روپے کے سودے مہینوں میں ہوگئے۔ ہر حکومت میں میر جعفر ہوتے ہیں۔ آپ کے اپنے ہی اورنگ زیب بن کر، اپنے خون، اپنے بھائیوں کو مروا دیتے ہیں اور خود بادشاہت کرتے ہوئے، مرہٹوں کے قبضے کو نظرانداز کرکے ٹوپیاں سینے بیٹھ جاتے ہیں۔ یاسر عرفات، یہودیوں کے ہتھے نہیں چڑھا تو اس کو خوراک کے ذریعے ہلاک کرنے کے منصوبے میں وہ کامیاب ہوئے۔ امریکی معیشت کی باگ ڈور اور استحکام، یہودی بگ باس کی وجہ سے قائم ہے۔ مسلمان ملکوں میں تو ایک بھی لیلیٰ خالد نہیں نکلی۔ وہ عیسائی تھی مگر پکی فلسطینی، جس نے جہاز اغوا کیا تھا۔

فلسطینیوں کی یہی وہ سرزمین ہے، جس پر قائداعظم نے بھی کہا تھا کہ فلسطین، فلسطینیوں کا ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ مغربی کنارے پر بھی یہودیوں نے زبردستی اپنی بستیاں بنالی ہیں۔ آپ کو ویزا تو پاکستان سے مل جاتا ہے مگر سرحد پہلے یہودیوں کی آتی ہے۔ براہِ راست آپ فلسطینی قوم کے پاس نہیں پہنچ سکتے۔ اتنی تلاشیاں اور سوال و جواب ہوتے ہیں کہ پاکستانیوں کے لئے وہاں جانا، ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔ جو پاکستانی غیر ممالک کے شہری ہوچکے ہیں۔ وہ فلسطین اور القدس ہو آئے ہیں۔ امریکہ کے علاوہ خود اسرائیلی قوم ، جانفشانی سے کام کرتی ہے۔ ان کے مرد، زیرِ زمین اسلحہ اور باردود سنبھالنے کا کام کرتے ہیں اور زمینی انتظام ، زیادہ تر خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ فلسطینیوں میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی شامل ہیں۔ لبنان اور مصر سے ان کی سرحدیں تھوڑی بہت ملتی ہیں۔ مگر اس جنگِ قتال کے دنوں میں بحرین ہو کہ مصر کہ یواے ای ، یہ سارے ممالک فلسطین کو باقاعدہ یہودیوں کا ملک کہہ کر، اسرائیل سے تجارتی اور دیگر تعلقات کو اس قدر بڑھا رہے ہیں کہ ایسٹرپر تو یہودیوں نے بلا پرمٹ آکر یو اے ای میں ہلاگلا کیا تھا۔ کینیڈا جس کا سربراہ، ہر غلط بات پر بولتا تھا، وہ بھی اور دوسرے بڑے ممالک بھی، خاموش تماشائی ہیں۔ باقی اسلامی ممالک کی فلسطینیوں کے حقوق کی آواز، نقار خانے میں بے معنی ہے۔ پھر تو اس جنگ کا نتیجہ، گولڈا میئر کے اندازے کے مطابق یہی رہے گا کہ 30فیصد حصہ میں فلسطینی اور 70فیصد میں اسرائیلی۔ 74سال سے اس قضیہ کو ختم کرنے کےلئے، امریکہ ہی تیار نہیں ہوتا، چین نے بھی آواز تو بلند کی مگر زیادہ اس لئے نہیں بولاجاسکتا کہ دنیا تیسری جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ تو پھر کیا یہ ہوگا کہ جو فلسطینی، اسرائیل کے علاقے میں ملازمتیں کرتے ہیں، ان کی روزی بھی ختم ہو جائے گی۔ روس سے تو چیچنیا ہی نہیں سنبھل پا رہا۔ اِدھر یوکرین کی طرف، روس اور امریکہ دونوں نظر جمائے ہوئے ہیں۔ یہ حالات بہتر ہوتے تو مودی یونہی کشمیر میں قانونی اور سیاسی من مانی نہ کرسکتا۔ اس وقت پاکستان منہ زبانی بہت کچھ کہہ رہا ہے۔ مجھے بتائیں یورپ اور انگلینڈ کی طرح قومی سطح پر کوئی مظاہرہ ہوا۔ اس وقت اسرائیل کی ہٹ دھرمی چل رہی ہے جو ہم میڈیا پر دیکھ رہے ہیں۔

تازہ ترین