کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان علینہ فاروق شیخ کے پہلے سوال پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی سے مفاہمت ضروری ہے یا معافی؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے شہباز شریف کا مفاہمت کا بیانیہ غالب آجائے گا ایک دوسرے سوال پر تجزیہ کاروں نے کہا کہ جہانگیر ترین پنجاب کے تناظر میں وزیراعظم عمران خان کی سیاسی ضرورت ہیں،شہزاد اقبال نے کہا کہ شہباز شریف کی سیاست ہمیشہ مفاہمانہ رہی ہے، شہباز شریف اپنے بھائی کیخلاف کھڑے نہیں ہوں گے البتہ نواز شریف کو مفاہمت کا راستہ چننے کیلئے قائل کریں گے، مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی پیپلز پارٹی کو شوکاز نوٹس کا جواب دیئے بغیر پی ڈی ایم میں واپس لینے کیلئے تیار نہیں ہیں لیکن ایسا لگتا ہے شہباز شریف کا مفاہمت کا بیانیہ غالب آجائے گا۔ شہزاد اقبال کا کہنا تھا کہ صحافی اسد طور پر حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں، حکومت جرنلسٹس پروٹیکشن بل لائی ا چھی بات ہے لیکن جب تک قانون پر عملدرآمد نہیں ہو قانون سازی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، پہلے بھی مطیع اللہ جان، ابصار عالم کے واقعات ہوچکے ہیں، صحافیوں پر حملے کی ایف آئی آرز بہت مشکل سے درج ہوتی ہیں، ایف آئی آر ہوجائیں تو ملزم کا پتا نہیں چلتا ہے، ملزم کا پتا چل جاتا ہے تو تحقیقات نہیں ہوتی، تحقیقات ہوجاتی ہے تو کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے۔ ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ اسد طور پر حملہ قابل افسوس اور قابل مذمت ہے، پی ڈی ایم میں سب کی اپنی اپنی رائے اور اپنے اپنے ایجنڈے ہیں، سب اپنے اپنے مسائل حل کرنے کیلئے علیحدہ علیحدہ ہیں۔ حسن نثار نے کہا کہ شہباز شریف ایک اسٹیٹس مین کی طرح رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، شہباز شریف نے کبھی اپنے مفاہمانہ رویے کا ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا، باقی لوگوں کا رویہ گاموں ماجوں جیسا ہے، یہ ملک مفاہمت کے علاوہ کسی چیز کا متحمل نہیں ہوسکتا۔مظہر عباس کا کہنا تھا کہ مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی کا رویہ کسی طرح بھی سیاسی اتحادیوں کا رویہ نہیں ہے، ان کے رویے سے ایسا لگتا ہے ن لیگ حکومت میں آگئی ہے۔