پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یورپین ممبران پارلیمنٹ کی جانب سے اٹھائے جانے والے مختلف سوالات کا مفصل جواب دیا ہے۔
یہ وہ سوالات تھے جو یورپین پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی میں مختلف گروپوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ممبران پارلیمنٹ نے پوچھے۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے سامنے جو سوالات اٹھائے گئے ان میں افغانستان میں پاکستانی کردار، افغانستان کے سیاسی مستقبل، کشمیر اور خطے کے دیگر تنازعات شامل تھے۔
اس کے ساتھ ہی ملک میں توہین مذہب کے قانون سے متعلق اقدامات، جی ایس پی پلس کے تحت حاصل مراعات اور پاکستان میں توہین مذہب سے متعلق یورپین پارلیمنٹیرینز کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات پر پاکستان کے غصے سے متعلق بھی سوالات اٹھائے گئے ۔
غیر جانبدار مبصرین اور اس نمائندے کی رائے کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ نے ان تمام سوالات کا مفصل اور تدبر سے جواب دیا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کسی پریشر گروپ کو ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
افغانستان سے متعلق پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اس تاثر کی نفی کی کہ پاکستان طالبان کے محافظ کا کردار ادا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستانی کردار کی معترف ہے۔ ہم اس مسئلے کی وجہ نہیں بلکہ اس کے حل میں مدد گار ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ مغرب نے افغانستان میں اب تک اس کی سماجی بہتری میں جو سرمایہ کاری کی ہے اسے ضائع نہ جانے دیا جائے، انہوں نے یورپ کو دعوت دی کہ آئیے مل کر اس کا حل نکالیں۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے افغانستان سے گزر کر دوسری جانب سفر کی مثال کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ افغانستان میں امن پاکستان کی خواہش ہی نہیں بلکہ اس کی ضرورت ہے۔
وزیر خارجہ نے اس دوران ایک ممبر کی جانب سے پاکستان میں صرف 4 فیصد تعداد ہونے کے باوجود اقلیتوں کے خلاف بلیس فیمی کے 50 فیصد مقدمات کی غلط تشہیر کا بھی جواب دیا۔
انہوں نے اعدادوشمار سے ثابت کیا کہ توہین مذہب کے قانون کے تحت 388 مجموعی مقدمات میں سے صرف 18 براہ راست اقلیتوں سے منسلک ہیں۔
ایک اہم بات جو ان سوالات کے ذریعے سامنے آئی وہ یہ کہ:
1) آج کے پارلیمانی سوالات یورپ کی اس وقت کی سوچ کے عکاس ہیں۔ سفارتی محاذ پر اسے مستقبل قریب میں انہی سوالات کا سامنا رہے گا جس کے جوابات کی تیاری کی جانی چاہیے۔
2) اسلاموفوبیا کا ذکر کرتے ہوئے اسے اپنے اس داخلی تضاد کا مؤثر دفاع بنانا پڑے گا کہ اس اصطلاح کا ذکر کرتے ہوئے اسے چائنہ کے مسلمان کیوں بھول جاتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کی آخری اہم بات یہ تھی کہ جی ایس پی پلس پر وہ یورپ کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولے کیوں کہ ایک سیاستدان سمجھ سکتا ہے کہ مشکل وقت میں مہربانی کرنے والے کا ’لیوریج‘ نہیں بلکہ اپنی ضرورت دیکھی جاتی ہے۔
مشکل وقت جیسا خود یورپ نے صدر ٹرمپ کے ساتھ گزارا۔