جنوبی ایشیا میں غیر منقسم ہندوستان کے سب سے پہلے اور مستند افسانہ نگار’’منشی پریم چند‘‘ کہلاتے ہیں۔ ان کو کئی القابات سے نوازا گیا، جن میں سے ایک’’ہندی کا شیکسپیئر‘‘ بھی ہے۔ اردو زبان کے دس بڑے اور عظیم ناولوں میں ایک ان کا ناول بھی شامل ہے، جس کا نام ’’گئودان‘‘ ہے۔ غیر منقسم ہندوستان کی دیہی زندگی اور ہندو مسلمان بھائی چارے کی نمائندگی بھی منشی پریم چند ہی نے کی، جبکہ ترقی پسندی کے عملی مظاہر بھی ان کے ادب میں منعکس ہوتے ہیں، غرض کہ جدید اردو ادب کی تاریخ میں منشی پریم چند پہلا مستند اور ممتاز حوالہ ہیں۔ ان کی کہانیوں کو تھیٹر، ریڈیو، ٹیلی وژن اور فلم کے میڈیم میں بھی پیش کیا گیا اور ان کی ادبی مقبولیت کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
انسان دوستی کے فلسفہ کو اپنا کر منشی پریم چند نے ایساادب تخلیق کیا، جس میں اُس وقت کے سماج کی واضح منظر کشی کی گئی ہے۔ انگریز ی راج کا زوال، مسلمانوں اور ہندوئوں کی اپنے وطن کے لیے تحریک آزادی کے لیے کی گئی کوششیں، پہلی اور دووسری جنگ عظیم سے پہلے کا عالمی تنائو سمیت کئی ایسی مسائل تھے، جس سے یہ دنیا اُس وقت گزر رہی تھی۔ ہمیںبہت حد تک منشی پریم چند کی کہانیوں کے پس منظر میں یہ ساری تفصیلات ملتی ہیں۔ ان کے ہاں، تخلیق کیے ہوئے ادب میں، خاص طور پر عام آدمی کی زندگی کو بہت گہرائی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
منشی پریم چند کا اصل نام’’دھن پت رائے‘‘ ہے۔ وہ 31 جولائی 1880 کو پیدا ہوئے، رحلت 8 اکتوبر 1936 کو ہوئی۔ انہوں نے اپنے قلمی نام منشی پریم چند سے ہی دنیا بھر میں شہرت پائی، یہ نام سرکاری ملازمت میں ہونے کی وجہ سے وقتی طور پر اختیار کیا تھا، لیکن آگے چل کر یہی نام ان کی ادبی شناخت بنا۔ انہوں نے غریب گھرانے میں آنکھ کھلی، پھرکم عمری میں ہی والدین کاسایہ بھی سر سے اٹھ گیا، سوتیلے رشتوں نے ان پر بہت ستم ڈھائے، لیکن تعلیم حاصل کرنے کی لگن تھی، جس کو کسی نہ کسی طرح جاری رکھا۔
بالترتیب میٹرک، انٹر کیا اور پھر بی اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔ سات آٹھ برس فارسی زبان پڑھنے کے بعد انگریزی زبان کی تعلیم بھی حاصل کی۔ کم عمری میں شادی اور پھر والدین سے جدائی نے ان کی کمر توڑ دی، لیکن ہمت نہ ہارے، روزگارکے ساتھ ساتھ لکھنے کے شوق کو سنجیدگی سے آگے بڑھایا، غم روزگار نے ان کو پریشان کیے رکھا، اس کے باوجود جم کر سماج کے لیے ادب بھی تخلیق کرتے رہے،جس کے اثرات آج تک اردو ادب پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
وہ ہندومسلمان دوستی اور بھائی چارے کا خواب دیکھتے تھے، یہی وجہ ہے، انہوں نے’’کربلا‘‘ اور’’کفن‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’حجِ اکبر‘‘ جیسی کہانیاں لکھتے ہوئے مسلمانوں کے تہذیبی پس منظر کو ذہن میں رکھا اور ایسا ادب تخلیق کیا، جو دل میں اترتا ہے۔ انہوں نے تقریباً درجن بھر ناول اور سیکڑوں کہانیاں لکھیں، جس میں اردو، ہندی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں اپنی تخلیقی اُپج کو بیان کیا ہے، مگر اردو اور ہندی زبانیں، ان کے تخلیقی اظہار کا بنیادی حوالہ رہیں۔ 1903 میں آپ کا پہلا ناول’’اسرارِ مابعد‘‘ شائع ہوا، کئی ناول حریت کے جذبے سے سرشار ہوکر بھی لکھے، جس کے نتیجے میں انگریزوں نے ان کا معاشی استحصال کیا۔
ان کا مشہورِ زمانہ ناول’’گئودان‘‘ ہے، جس نے ادبی دنیا میں سب سے زیادہ شہرت حاصل کی۔ ان کی وفات کے برس یعنی 1936 میں ہی ان کا یہ ناول’’گئودان‘‘ شائع ہوا تھا، جو دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ اس ناول کو منشی پریم چند کا سب سے بہترین ناول مانا جاتا ہے۔ یہ ناول ہندوستانی کسانوں کی زندگی کا عکاس ہے۔ ہندوستان میں ریڈیو سے وابستہ ایک براڈ کاسٹر نے منشی پریم چند کی اس کہانی کو پڑھنا چاہا، تو اس پر مودی سرکار کی طرف سے پابندی عائد کردی گئی، اس وقت ہندوستان میں کسانوں کے احتجاج اور استحصال کی جو شکل ہے، وہی ابتری منشی پریم چند نے اپنے ناول میں بیان کی ہے۔ اس ناول پر انڈیا میں معروف شاعر اورفلم ساز گلزار نے ایک ٹیلی وژن سیریز بنائی، جبکہ تھیٹر اور ریڈیو کے لیے بھی اس ناول سے استفادہ کیا گیا اور ایک فلم بھی بنائی گئی۔
ناول ’’گئودان‘‘ پر بھارتی فلم ساز’’ترلوک جیٹلی‘‘ نے ناول کے عنوان سے ہی فلم بنائی، جس کو 1963 میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ اس بلیک اینڈ وائٹ فلم نے اس ناول سے انصاف کیا۔ اس فلم کے فنکاروں میں راج کمار، کامنی کوشل، محمود اور دیگر شامل تھے، جبکہ فلم کی موسیقی روی شنکر کی تھی اور لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، مکیش، گیتا دت، مہندیرا کپورو دیگر نے اپنی آوازوں کا جادو جگایا۔