کیا ادب میں بھی اشیا، افراد اور تجربات کے وہی معنی ہوتے ہیں جو زندگی میں؟
پیشِ نظر سوال تو کچھ اور تھا، لیکن پوچھتے ہوئے اُس کی صورت قدرے تبدیل ہوگئی۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم نے وہ سوال ترک کردیا ہے۔ یقینا نہیں۔ بنیادی طور پر ہم اسی سوال پر غور کرنا اور اس کے توسط سے ادب کے عمل کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ سرِدست مندرجہ بالا سوال پر توجہ کی دو وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ اس سوال میں ایک عمومی تناظر قائم ہوتا ہے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ عمومی تناظر نسبتاً سادہ اور زیادہ کشادہ ہوتا ہے۔ اُس میں حالات، واقعات، معاملات اور سوالات کو دیکھنے کے لیے سادہ رویے اور کسی قدر طائرانہ نگاہ سے بھی کام چل جاتا ہے۔
یعنی اُس کے حوالے سے اصول کی سطح پر ہم کچھ باتوں کو طے کرسکتے ہیں اور اُن کے بارے میں ایک بنیادی رائے یا تصور قائم کرسکتے ہیں۔ دوسری یہ کہ ادب میں براہِ راست چیزوں کی ضرورت اور اہمیت ذرا کم یا مشکل ہی سے متعین ہوپاتی ہے۔ اس لیے بڑے سوالوں پر غور کرتے ہوئے ہمیں کئی دوسرے حوالوں اور پہلوؤں کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ہر بڑا سوال اپنا ایک سیاق و سباق رکھتا ہے اور اس کی نوعیت و معنویت کا صحیح معنوں میں ادراک اسی وقت ہوسکتا ہے جب اسے پورے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جائے۔
علاوہ ازیں یہ بھی ہے کہ ادب خود ایک تہ دار قرینہ ہے۔ چناںچہ افراد ہوں یا اشیا، احساسات ہوں یا تجربات اور سوالات ہوں یا واقعات— ادب اُن کے معنی اور اثرات دونوں کو براہِ راست قبول کرتا ہے اور نہ ہی پیش۔ اُسے تو اصل سروکار اُن کی تہ میں کارفرما محرکات سے ہوتا ہے۔ گویا وہ معنی کے معنی کی جستجو کرتا ہے، اور یہ سمجھنا یا سمجھانا چاہتا ہے کہ انسان اور اس کی کائنات دونوں ہی کی معنویت اصل میں اُس اصول یا سوال پر منحصر ہوتی ہے جو بدلتا تو بے شک آدمی کے ظاہر کو ہے، لیکن کارفرما کہیں اس کے باطن میں ہوتا ہے۔ ادب یہ بات اس لیے ہمیں بتاتا ہے تاکہ ہم اُس حقیقتِ حقہٗ کا فہم حاصل کرسکیں جو ہر بڑے انسانی واقعے کے پس منظر میں کارفرما ہوتی ہے۔ یعنی:
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
حیاتِ انسانی کے تجربات ہوں یا اُس پر اثر انداز ہونے والے افراد و اشیا، ادب میں ان کے بعینہٖ وہ معنی نہیں ہوتے جو عام طور سے روزمرہ انسانی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ اس لیے ادب اور زندگی کے رشتے کو دو جمع دو مساوی ہے چار جیسی کسی مساوات کے ذریعے قطعی طور پر نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ ادب میں دو جمع دو کا حاصل کبھی پانچ یا ساڑھے پانچ بنتا ہے اور کبھی تین اور ساڑھے تین۔ ادب انسان اور اس کی زندگی کے بارے میں کوئی بات بالعموم ہمیں اس طرح نہیں بتاتا جس طرح اخلاقیات، سماجیات، سیاسیات، نفسیات یا تاریخ وغیرہ کی کتابیں بتاتی ہیں— اور جو کچھ ادب ہمیں بتاتا ہے، وہ ان علوم کی ساری کتابیں مل کر بھی نہیں بتا پاتیں۔ اسی نکتے سے یہ بات ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ادب کے larger than life ہونے کا مطلب کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ادب میں خیر و شر کے کیا معنی ہیں؟
سب سے پہلے تو یہ طے ہے کہ ان دونوں کے ادب میں چاہے جو بھی معنی ہوں، لیکن وہ معنی بہرحال نہیں ہوتے جو ہم اپنے روزمرہ تناظر میں سمجھتے ہیں۔ ادب کا اصل سروکار ظاہر سے نہیں ہوتا۔ وہ عقب میں کام کرنے والی قوت کو دیکھتا ہے۔ اس سے وہ کسی کردار یا اُس کے کسی عمل کی نوعیت اور وقعت کا تعین کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی ظاہر میں نظر آنے والا ایک نیک شخص اپنی ادبی معنویت کو خیر سے نہیں، بلکہ شر سے متعین کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، اور اسی طرح ایک شخص کو ہم مجسم شر کی صورت میں دیکھتے ہیں، لیکن ادب میں اس کا معنوی حاصل جمع خیر بن کر سامنے آتا ہے۔ اس مسئلے کو ہم ایک مثال کے توسط سے بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔
منٹو کا ایک افسانہ ہے ’’بابو گوپی ناتھ‘‘۔ مرکزی کردار کی ایک طوائف سے تعلق کی روداد اس میں بیان کی گئی ہے۔ اب ظاہری منظر یہ بتاتا ہے کہ ایک عیاش آدمی ایک خوب صورت عورت میں وہ اِس درجہ محو ہے کہ اُس کی خاطر مدارات میں اپنے حال ہی میں مرنے والے باپ کی دولت بے دریغ لٹا رہا ہے۔ تاہم افسانے کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے ان کرداروں کی کایا کلپ ہوجاتی ہے۔ عیاش آدمی (بابو گوپی ناتھ) اور طوائف (زینت) کے اندر سے ایسی اجلی روحیں برآمد ہوتی ہیں کہ ان پر کتنے ہی پاک باز وار دیے جائیں۔ اب بتائیے یہ کیا ہے اور منٹو نے ہمارے ساتھ کیا ہاتھ کر دکھایا؟
سچ پوچھیے تو منٹو نے کوئی واردات نہیں کی ہے، واردات تو اصل میں ہم سب کرتے ہیں خود اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ اور خود اپنے ساتھ بھی۔ صرف اس افسانے کے منظرنامے کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ خود زندگی کے تناظر میں ہم جن کرداروں سے ملتے ہیں، ان کے ظاہر کے تماشے کو ہی اصل حقیقت سمجھ بیٹھتے ہیں اور یہ ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے کہ ان کے اندر جھانک کر دیکھیں کہ وہاں اصل میں کیا ہورہا ہے، اُن کی روح کو دریافت کریں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ وہ کیسی ہے اور کس حال میں ہے۔
اس کی آرزوئیں، امنگیں، جذبے اور مسرتیں کیا ہیں، وہ زندگی کو کیسے دیکھتی اور کیا سمجھتی ہے اور اسے کیسے بسر کرنا چاہتی ہے۔ منٹو نے اپنے اس افسانے میں یہی کچھ دیکھنے اور جاننے کی کوشش کی ہے۔ اس کے لیے اس نے بس یہ کیا کہ ان کرداروں پر پڑا ہوا ظاہر کا پردہ خاموشی سے ہٹا کر ایک طرف کردیا۔ اس کا مطلب تو پھر یہی ہوا نا کہ افسانے کے کردار نہیں بدلے، بلکہ ہم جو اُن کو دیکھ رہے تھے، وہ بدل گئے، اس لیے کہ دیکھنے والی نگاہ بدل گئی۔
چند مثالیں مگر محض اشارتاً دیکھتے چلیے۔ تاکہ ہم جس نکتے کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں، وہ ذرا اور واضح ہوجائے۔ ہیملٹ کے جذبۂ انتقام اور اُس کے دوست بروٹس کی شخصیت کو آپ کیا کہیں گے؟ ’’برادرز کراموزوف‘‘ کے تینوں بھائیوں کے کردار اپنے آخری تأثر میں کس طرح سامنے آتے ہیں؟ ٹالسٹائے کے ’’وار اینڈ پیس‘‘ کے وسیع و عریض لینڈ اسکیپ میں کرداروں کی بدلتی ہوئی، بلکہ کتنی ہی جگہ اذیت ناک رُخ سے سامنے آتی ہوئی صورتوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وکٹر ہیوگو کے ’’لامضراب‘‘ کا مرکزی کردار جو چوری کی سزا کاٹ کر باہر آیا اور معاشرہ جسے نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے اور پھر آگے چل کر ناول کا سفر جس طرح اسے پیش کررہا ہے، اس کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟
میلان کنڈیرا کے پروفیسر کے بارے میں سوچیے جو ویسے تو انسانی آزادی، حقوق، مساوات، خیرخواہی اور بھلائی کی باتیں کرتا ہے، لیکن سماجی و سیاسی اذیت و استحصال کی پامالی کو جھیلتی عورت کو جھانسا دے کر اس کی عزت پامال کرتا ہے یہ تو سب باہر کی دنیا کے لوگ ہیں، لیکن ہمارے یہاں بھی تو ایسے کتنے ہی کردار اور ان کے عجیب عجیب ماجرے ہیں۔ منٹو کی موذیل، قرۃ العین کے افسانے ’’نظارہ درمیاں ہے‘‘ کے مرکزی کردار کی بیوی جو اس لڑکی کو دیکھ رہی ہیں جسے آنکھیں عطیہ کی گئی ہیں، اشفاق احمد کے ’’گڈریا‘‘ کے داؤجی، اسد محمد خاں کے مئی دادا اور باسودے کی مریم، اور سیّد محمد اشرف کے نیلا کا مالک نمبردار وغیرہ کے بارے میں بھی ذرا سوچ کر دیکھیے اور کوئی رائے قائم کیجیے۔
ادب میں کسی بھی کردار کی خارجی صورتِ حال اور ظاہری عوامل کو اُس کے بارے میں خیر و شر کا فیصلہ کرنے کے لیے اختتام سے پہلے قابلِ اعتبار نہیں گردانا جاسکتا۔ اب بتائیے کہ انسانوں کے حقیقی زندگی میں تجربات کے حوالے سے بھی ہمیں کچھ ایسی ہی صورتِ حال پیش نہیں آتی۔ بشرطے کہ ہم ان کے بارے میں ٹھنڈے دل سے اور جملہ حقائق و حالات کو سامنے رکھتے ہوئے دیانت دارانہ فیصلے پر آمادہ ہوں۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ادب میں خیر و شر کے معنی بدل جاتے ہیں، یا ادیب چوںکہ non conformist ہوتا ہے، اس لیے وہ اپنے سماج کی اقدار کے نظام سے ٹکرانا ضروری سمجھتا ہے۔ اس کے برعکس، ادیب وہ شخص ہے جو کسی مبلّغ یا مصلح سے زیادہ اپنی تہذیبی و سماجی اقدار کی تعمیر و استحکام کے لیے معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ وہ ظاہر پرست نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہ افراد کے اور سماج کے عقب میں بار بار جھانکنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اس حقیقت کا سراغ لگاتا ہے کہ کسی شخص کی زندگی میں ایسے کون کون سے محرکات کام کررہے ہیں جو ایک فرد یا اُس کے سماج کے ذہنی رویوں کی تشکیل کا ذریعہ بنتے ہیں۔
ادیب اپنے سماج کے مذہبی یا اخلاقی نظام کی نفی کا خواہاں نہیں ہوتا، بلکہ وہ تو صرف یہ چاہتا ہے، اُن کی آڑ میں جو کچھ ہورہا ہے، اُس کا پردہ چاک کردے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کی نظر کیچڑ میں کھلے ہوئے پھول تک بآسانی پہنچ جاتی ہے۔ یہی نہیں، بلکہ وہ اس پھول کو لاکر انسانیت کے دامن میں ڈالنا چاہتا ہے، تاکہ خوش بو کو، حسن اور خیر کو سماج میں جگہ دلاسکے، پھیلا سکے۔