اُردو میں لکھی جانے والی متعدد آپ بیتیوں نے، اپنی متنوع خصوصیات :بمثل ذاتی احوال و واقعات، خاندان، عہد و ماحول، شغل اشغال، شخصی سرگرمیاں، انفرادی و اجتماعی زندگی، دوست احباب، معاصرین اور اسلوب ِ بیان کے سبب، بڑی شہرت و مقبولیت پائی اورجن کا ذکر بطورایک صنف ِادب جائزوں و مطالعات میں لازما ً شامل رہتاہے۔اسی زمرے میں مملکت حیدرآباد کے دربار سے منسلک ایک اہم شخصیت ہوش یار جنگ کی تصنیف کردہ معروف ومنفرد خودنوشت سوانح عمری ’’مشاہدات‘‘ بھی شامل ہے اور جوایک خاص شہرت کی حامل رہی ہے۔
ہوش یار جنگ بہادر یا سید ناظرالحسن فرزندسید اقبال حسین اگرچہ شاعر بھی تھے اور نثر نگار بھی، لیکن اپنی ادبی و تصنیفی خدمات سے کہیں زیادہ اپنی سماجی و انتظامی حیثیتوں کے سبب زیادہ معروف و ممتاز ہوئے۔ پیدائشی و خاندانی تعلق و نسبت تو ان کی بلگرام سے تھی اور جو ان کے لیے قابل ِ فخر بھی تھی کہ صوبۂ متحدہ، ضلع ہردوئی کایہ مردم خیز خطہ عہد مغلیہ میں مشاہیر علم و ادب ، جیسے سید مرتضیٰ بلگرامی ، سید عبدالجلیل بلگرامی اور ان سے بڑھ کر سید غلام علی آزاد بلگرامی جیسے اکابرِوقت سے نسبت رکھتا ہے، لیکن انتظامی ذمے داریوں اور مناصب و اعزازات کے طفیل ہوش بلگرامی کو شہرت مملکت آصفیہ حیدرآباد دکن سے وابستگی کے دوران ِ ملی ۔ان کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۱۵ء میں ہوا جب انھوں نے خود حیدرآباد سے اپناایک ادبی رسالہ ’’ذخیرہ‘‘ جاری کیا جو ۱۹۱۸ء میں اس وقت تک نکلتارہا جب تک کہ یہ بطور سزا ریاست بدر نہ ہوئے۔اس کے ایک سالگرہ نمبرمیں کوئی ایک مضمون، جس کی تفصیل انھوں نے نہیں دی، انھوں نے ایسا شائع کردیا کہ جو شاہی عتاب کا سبب بنا اور وہ مملکت بدر کردیے گئے۔
حیدرآباد سے نکل کر وہ مختلف ریاستوں، جیسے رامپور اور بھوپال میں قسمت آزمائی کرتے رہے لیکن حیدرآباد کی دل کشیاں انھیں چین نہ لینے دیتی تھی تو بارہ سال کے بعد پھر حیدرآباد کا رُخ کیا۔مہاراجہ کشن پرشاد کی سفارش کی وجہ سے یہ پہلے ایک بنک میں ملازم ہوئے پھرسرکاری ودرباری مناصب پرجنوری ۱۹۴۸ء میں سبک دوشی تک فائز ہوتے رہے لیکن سبک دوشی کے بعد بہت دل برداشتہ رہے۔ان کی دل برداشتگی کی ساری کیفیات ان کی آپ بیتی ’’مشاہدات‘‘ میں ظاہر ہوتی ہیں۔یہ تصنیف ، بقول مولانا عبدالماجد دریابادی ان کی دنیوی زندگی کے اتار چڑھاؤ کا مرقع ہے ۔’’مشاہدات‘‘ انھوں نے ۲۵؍ فروری ۱۹۴۹ء کو لکھنے شروع کیے تھے جو ۴؍ ستمبر ۱۹۵۰ء کو مکمل ہوئے لیکن اسے فوری شائع کروانا انھوں نے قرین مصلحت نہ سمجھا۔
مصلحت ان کی یہ تھی کہ سقوط ِ حیدرآباد ۱۳؍ ستمبر ۱۹۴۸ء کا سانحہ تھا اور مصلحت پسند ہوش نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ ان دنوں جب کہ سیاسی و انتظامی صورت ِ حال غیر یقینی تھی اور سقوط یا بھارتی فوج کے خلاف جیسے تیسے اقدامات اور رضاکار تحریک سے وابستہ ’’مجاہدین‘‘ کے خلاف سزاؤں کے فیصلے کچھ ہوچکے تھے اورکچھ عدالتوں میں زیر التوا تھے، مصنف کو ان کے حتمی فیصلوں کا انتظار تھا کہ ان میں سے کچھ کا ذکر یا حوالہ ’’مشاہدات‘‘ میں شامل تھا اور مصنف کسی موجودہ سرکاری ابتلأ سے دوچار ہونا نہ چاہتے تھے۔اس لیے اس کتاب کی اشاعت پانچ سال تک التوا کا شکاررہی اور ۱۹۵۰ء میں انقلاب پریس حیدرآباد سے شائع ہوئی۔اس مصلحت کیش التواکا سبب جاننے والوں میں ’’مشاہدات‘‘ کے بارے میں ایک عام تجسس اور اشتیاق پیدا ہوگیا تھا چناں چہ جب یہ شائع ہوئی تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اسی وجہ سے یہ جلد ہی ناپید بھی ہوگئی اور لوگوں کو ڈھونڈھے بھی نہ ملتی تھی۔
’’مشاہدات‘‘کی اشاعت کے محض چند ہفتوں کے بعد ہوش اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔پیدائش کی تاریخ خود ہوش نے کہیں نہ لکھی نہ ہی ان کی آپ بیتی میں ملتی ہے لیکن ایک روایت کے مطابق ۱۸۸۶ء اور دوسری روایت کے مطابق ۸؍ جون ۱۹۰۰ء کو پیدا ہوئے تھے ۔لیکن ۱۸۸۶ء حقیقت سے قریب تر لگتی ہے کیوں کہ انھوں نے ۱۹۱۵ء میں حیدرآباد سے اپنا رسالہ’’ذخیرہ‘‘ شائع کرنا شروع کیاتھا جس کا جاری کرنا اور اس میں مضامین لکھنا لکھواناایک پندرہ سال کے نوجوان کے لیے قابل قبول نہیں لگتا ہے۔
اس کی سرپرستی نواب عمادالملک نے کی اور خود اپنے مضامین لکھنے کے علاوہ دیگر اصحاب سے بھی اس کے لیے لکھوائے۔تخلص ’ہوش‘ بھی ان ہی کا دیاہوا تھا۔’’مشاہدات‘‘ نے اشاعت کے بعداپنے مباحث و مطالب کے سبب لوگوں کو ،جو ہوش کو نہ بھی جانتے تھے، ان کی طرف متوجہ کیا اور پسندیدگی اور ناپسندیدگی کی ایک فضا پیدا کی۔ عبدالماجد دریا بادی نے اس کی اشاعت کے فوری بعد اپنے رسالے’’صدق ‘‘ میں اس پر تبصرہ شائع کیا جس سے اس کی شہرت دوچندہوگئی۔
ہوش نے بھر پور عملی زندگی گزاری جس میں انتظامی ذمے داریاں بھی تھیں، مصاحبت کے طور طریق بھی تھے ، مجلسی شغل اشغال بھی تھے اور ادبی تخلیقی سرگرمیاں بھی تھیں۔انھوں نے ادبی صحافت میں بھی دخل دیا اور ’’ذخیرہ‘‘ کوئی تین سال تک نکالتے رہے، جس میں معاصرین کی تخلیقات شائع کی جاتیں۔ اسی کے توسط سے ان کے روابط معاصر ادیبوں اور شاعروں سے قائم ہوئے جن میں مہدی افادی،پیارے لال شاکر میرٹھی، یاس یگانہ چنگیزی،اکبر الہ آبادی،مولوی عبدالحق، نیاز فتحپوری، مولانا عبدالماجد دریابادی، سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالباری ندوی،مولانا مناظر احسن گیلانی ، تاجور نجیب آبادی،مولانا ظفر علی خاںجیسے اکابر بھی شامل تھے۔
عربی و فارسی میں بہت اچھی استعداد تھی اور بذلہ سنجی و حاضر جوابی میں اپنا کوئی ثانی نہ رکھتے تھے۔خوش گفتاری میں کمال حاصل تھا کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی کے مصداق ہر محفل میںہاتھوں ہاتھ لیے جاتے اور چھاجاتے۔نظام حیدرآباد میرعثمان علی خاں ان کی ان صفات کو اس حد تک پسند کرتے تھے کہ انھیںاپنے مصاحب ِ خاص کا درجہ دے دیاتھا اور اسی لیے انھیں ’’ہوش یار جنگ‘‘ کا خطاب عطا کیاتھا۔بل کہ نظام حیدرآبادان کی خوش بیانی اور شگفتگی سے اتنے متاثر تھے کہ اپنے ساتھ سفر میں بھی ہم رکابی کا شرف بخشتے تھے چناں چہ مملکت اور بیرون مملکت کے متعددشہروں کے سفر میں یہ شریک رہے اور جو مشاہدات اور ان مقامات کے مناظرہوش نے تحریر کیے ہیں وہ اس خود نوشت کے بہترین اجزا کہے جاسکتے ہیں۔
ہوش شاعر بھی تھے اور نثر نگار بھی۔ شاعری میں حیدرآباد کے اس وقت کے ممتاز شاعر نظم طباطبائی (۱۸۵۲ء۔۱۹۳۲ء)سے تلمذ اختیار کیا۔ طباطبائی نے ان کی ایک مختصر تصنیف پر، جو بدیہہ گوئی پر تھی،اور جس میں عربی، فارسی اور اردو کے بدیہہ گو شعرأ کا کلام مع توضیحات اور شان نزول بیان کیے تھے، ایک مفصل اور محققانہ مقدمہ لکھا تھا۔اسی عرصے میں خود ہوش نے نظم طباطبائی کی مشہور زمانہ نظم’’گورِ غریباں‘‘پر، جو انگریز شاعرتھامس گرے (Thomas Grey،۱۷۱۶ء۔۱۷۷۱ء)کی نظم کا ترجمہ تھا، ایک بڑا معلوماتی تبصرہ لکھ کراپنے رسالے’’ذخیرہ‘‘ کے شمارہ اگست ۱۹۱۷ء میںشائع کیا ۔
دیگر تصانیف میں’’عروس ادب‘‘(مضامین کا مجموعہ)،’’ہماری بت پرستیاں‘‘،’’طوفان ِ محبت‘‘(مثنوی)،’’سرودِ غم‘‘(شعری مجموعہ)، ’’مثنوی نل دمن‘‘اور’’ مثنوی یوسف ذلیخا‘‘کی تدوین جیسی کاوشیںشامل ہیں۔ان مستقل کتابوں کے علاوہ وہ گاہے گاہے مضامین دیگر ممتاز ادبی رسائل میں بھی لکھتے اور شائع کرواتے رہے، جن کے حوالے ’’مشاہدات‘‘ میں موجود ہیں اور جو ان کے مجموعے’’عروس ِ ادب‘‘ میں بھی شامل ہوئے۔
ایک عام رائے یہ ہے کہ ہوش میں بھرپور ادبی صلاحیتیں موجود تھیں اور ان کا اسلوب بھی نہایت جاذب توجہ اورپرکشش تھا لیکن ان کی سماجی اور درباری مصروفیات بل کہ دربار داری اور اس کی سازشوں اور چال بازیوں نے ادب سے ایک لائق تخلیق کار کوچھین لیا تھا۔اس کی ایک قدرے تلافی ہمیں ’’مشاہدات‘‘ کی صورت میں ضرور نظرآجاتی ہے کہ اس کے ذریعے اردو زبان کے خودنوشتہ سوانحی ادب میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد خود نوشت سوانح عمری کا اضافہ ہوا لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ خودنوشت سوانح عمری کے فن کے لحاظ سے یہ معروف معنوں میں ایک معیاری خود نوشت سوانح عمری بھی نہیں کہی جاسکتی۔
اس میں یہ صفت تو ہے کہ یہ مصنف کی زندگی کے احوال یا متعلقہ کوائف کو اور مصنف کے خیالات و نظریات اور تاثرات و مشاہدات کوہمارے سامنے لاتی ہے لیکن یہ ایک سوانح عمری کی طرح مربوط اور عہد بہ عہد واقعات کو ارتقائی نوعیت کے ساتھ پیش نہیں کرتی۔آغاز میں اگرچہ کچھ خاندانی پس منظر اور جائے پیدائش’ بلگرام‘ اور اس کے تاریخی و علمی امتیازات کا ذکر ہے اور بڑے فخریہ انداز میں ہے لیکن اپنے بچپن، گھریلو ماحول اور تعلیمی زندگی کا کوئی احوال ہمیں اس میں مناسب صورت و ترتیب میں خصوصیت کے ساتھ نہیں ملتا۔ ان کے مقابلے میں اپنے سیاسی مسلک اور اپنے مذہبی مسلک کو انھوں نے ابتدأ ہی میں وضاحت سے بصورت ِابواب تحریر کردیا ہے۔
وہ مسلکاً شیعہ تھے لیکن اہل سنت سے بہت قریب رہے اوراس ضمن میں حددرجے روشن خیال بھی تھے کہ سید سلیمان ندوی نے انھیں’’وہابی شیعہ‘‘ قراردیاتھا۔عمائدین حکومت اور منتظمین و مدبرین ہر ایک سے ان کے تعلقات استوار رہے ۔جو جو واقعات انھوں نے لکھے ہیں اور جن شخصیات کے حوالے سے جو کچھ بھی لکھاہے یا جہاں جہاں وہ رہے، سفرکیا، اورگئے، ان مقامات کا بڑی گہری نظر سے مشاہدہ کیا، ان سب کو انھوں نے پیش کیاہے اوراس طرح اپنی اس تصنیف کو خاصا دل چسپ اور معلوماتی بھی بنایا ہے۔
ان ساری صفات اور خصوصیات سے قطع نظر اس خود نوشت کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس کا ایک بڑا حصہ سقوط ِ مملکت حیدرآباد کے آخری ایام اور اس کے سیاسی ابتلااور مصنف کے تاثرات و نظریات کے بیان پر مشتمل ہے۔اس طرح کے موضوعات اور بیانات و احوال متعدد مصنفین نے تحریر کیے ہیں جن میں خود اس وقت کے وزیر اعظم میر لائق علی کی ضخیم انگریزی خودنوشتThe Tragedy of Hyderabad ہے جسے حیدرآبادی عوام کا ایک عمومی مؤقف کہاجاسکتاہے لیکن لائق علی اور میر عثمان علی خاں سیاسی مسائل کے حل کے ضمن میں متفق الخیال نہ تھے ۔
لایق علی بھارتی جارحیت کو روکنے اور حیدرآباد کو آزاد وخود مختار رکھنے کے قائل تھے اور آزادی کی جدوجہد میں مصروف جماعت ’’مجلس اتحاد المسلمین‘‘اور اس کے علم برداروں کے حمایتی تھے، جب کہ نظام میر عثمان علی خان تذبذب کے شکار اور صلح جوئی اور مفاہمت چاہتے تھے۔مملکت ِ حیدرآبادکے آخری ایام اور سقوط کے عرصے کی یہ صورت حال اور حالات و واقعات متعلقہ متعدد تصانیف کے علاوہ، جن میں راقم الحروف کی کاوش ’’تحریک آزادی اور مملکت حیدرآباد ‘‘ بھی شامل ہے، اور اس نوع کی پچاسوں کتابوں کے ساتھ ساتھ ذاتی یادداشتوں پر مشتمل تصانیف میں ’’مشاہدات‘‘ کے علاوہ خاصی تعداد میں موجودہیں۔
ذاتی اور چشم دید یادداشتوں کے علاوہ افسانوں اور ناولوں میں بھی سقوط اور اس کے دوران پیش آنے والے حالات اور المناک واقعات پیش کیے گئے ہیں، جن میں عزیزاحمد کی ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘؛ابراہیم جلیس کی ’’دوملک ایک کہانی‘‘، واجدہ تبسم کی’’نتھ اترائی‘‘، اور جیلانی بانو کی’’ ایوان غزل‘‘ چند نمایاں و مثالی کاوشیں ہیں۔واجدہ تبسم، جیلانی بانو اور ابراہیم جلیس نے اس المیے کو اپنی مزید تخلیقات میں بھی پیش کیاہے۔یہ نمائندہ حوالے ہیں، یگر متعدد ناول نویسوں اور افسانہ نگاروں نے بھی سقوط کو موضوع بنایا ہے۔
ایسی تمام تصانیف کے مقابلے میں ’’مشاہدات‘‘ کی انفرادیت اور اہمیت یہ ہے کہ یہ ایسے مصنف کی تصنیف ہے جوسیاسی ابتلا کے دوران حکمرانِ وقت کا مصاحبِ خاص رہاہے اور کم از کم دربار اور بابِ حکومت کے اندرونی حالات، نقطۂ نظر، احساسات اور مصلحتوں سے اپنی ممکنہ حد تک واقف رہا ہے۔ چناں چہ دیگر تمام مصنفین کے مقابلے میں، جنھوں نے اس حوالے سے اپنے اپنے مشاہدات و خیالات اپنی اپنی تصانیف میں پیش کیے ہیں، ’’مشاہدات‘‘کوایک راست اور بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے جو چاہے مصنف کے ذاتی اور مخصوص نقطۂ نظر کے مطابق ہو یا عمومی اور عوامی تناظر کے حقائق سے بالاتر یا دور ہو۔
اپنی مخصوص حیثیت میں متعلقہ موضوع اور عہد و حالات کے تعلق سے یہ ایسی تصنیف ہے جس سے استفادے اور حوالے کے بغیرسقوط ِ مملکت آصفیہ (ستمبر ۱۹۴۸ء) کے دوران پیش آمدہ حالات و مسائل کی تاریخ کو متعین نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا یہ تصنیف ان حوالوں سے ایک ناگزیر ماخذ کی حیثیت و اہمیت رکھتی ہے۔