• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی خارجہ پالیسی اور علاقائی و عالمی تبدیلیاں

عام طور پر کسی بھی مُلک کی خارجہ پالیسی پر علاقائی اور عالمی تبدیلیوں کے گہرے اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔نیز، مُلکی اور عالمی اقتصادی معاملات بھی اس کی پالیسیز کو متاثر کرتے ہیں۔پاکستان کو گزشتہ تین برسوں میں اِن دونوں عوامل کا بخوبی تجربہ ہوا۔صدر ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ، افغانستان اور بھارت سے متعلق جو اقدامات کیے، اُس نے ہمیں بھی اپنی خارجہ پالیسی بدلنے پر مجبور کیا۔ یہ تبدیلیاں مثبت تھیں اور کئی اعتبار سے منفی بھی۔ مُلکی معیشت جس تیزی سے نیچے آئی، اُس نے بھی پالیسیز بدلنے میں اہم کردار ادا کیا، اِس ضمن میں اقتصادی پہیّا چلانے اور ڈی فالٹ سے بچنے کے لیے عرب ممالک اور آئی ایم ایف سے قرضوں کی صُورت تعاون کا حصول اوّلین حیثیت اختیار کر گیا۔ 

خود وزیرِ اعظم ، عمران خان نے اعتراف کیا کہ دوست ممالک نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے میں بہت تعاون کیا۔ صدر جوبائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد خارجہ پالیسی کے ضمن میں کچھ نئے چیلنجز سامنے آئےہیں۔خاص طور پر اُن کے تین اقدامات کا پاکستان سے براہِ راست تعلق ہے۔افغانستان سے امریکی فوج کی ستمبر تک واپسی، مشرقِ وسطیٰ میں عرب ممالک سے تعلقات میں سرد مہری اور ایران سے مذاکرات کا آغاز۔چوں کہ کم زور معیشت پاکستان کے اہم کردار ادا کرنے کی راہ میں حائل ہے، اِسی لیے طے کیا گیا کہ پہلے معاشی بہتری کی کوشش کی جائے تاکہ گھر درست کرنے کے بعد خارجہ سطح پر کوئی بڑا قدم اُٹھایا جاسکے۔

نئے حالات میں ہماری خارجہ پالیسی کس نوعیت کی ہونی چاہیے؟ یہ سوال اِن دنوں بہت اہمیت اختیار کرچُکا ہے، اِسی لیے اِس معاملے پر مسلسل اعلیٰ سطحی اجلاس ہو رہے ہیں۔ نیز، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر رابطے بھی تیز کیے جا رہے ہیں کہ کہیں ہم تنہا نہ رہ جائیں۔ تاہم، مشکل یہ ہے کہ ہم اب بھی کسی واضح سمت کا تعیّن کرنے کی بجائے صرف ردّعمل کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

اگر دیکھا جائے، تو افغانستان سے امریکی فوج کے جانے میں تین ماہ رہ گئے ہیں۔ اِس ضمن جن امکانات پر بات ہو رہی ہے، اُن کے مطابق امریکا کے جانے کے بعد طالبان افغان سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے لگیں گے،جیسا کہ صدر اشرف غنی اشارہ دے چُکے ہیں کہ وہ اُن کے ساتھ شراکت داری یا پھر انتخابات کے ذریعے نئے مینڈیٹ کے لیے تیار ہیں۔غالباً یہی وہ راستہ ہے، جو سب کو بہتر لگتا ہے، کیوں کہ اِسی سے افغان امن عمل مکمل ہوسکے گا۔انقرہ میں ہونے والے اجلاس میں یہی باتیں طے ہونا تھیں، لیکن طالبان نے اِس معاملے میں کافی محتاط رویّہ اختیار کیا۔

غالباً اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ مذاکرات میں اپنی قیمت زیادہ سے زیادہ بڑھانا چاہتے تھے۔امریکا اور پاکستان سمیت کئی ممالک کا، جنہوں نے قطر مذاکرات اور پھر اس کے نتیجے میں ہونے والے معاہدوں میں سہولت کاری کی، اصرار تھا کہ ان معاہدوں کی پاس داری کی جائے۔پہلا معاہدہ امریکا اور طالبان کے درمیان تھا، جس کے نکات میں فوج کی واپسی، قیدیوں کا تبادلہ اور علاقے کو تشدّد سے پاک بنانا شامل ہیں۔ دوسرا معاہدہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہوا، جسے’’ انٹرا افغان ڈائیلاگ ‘‘کا بھی نام دیا گیا۔ اس کا مقصد افغان فریقین کو اس اَمر پر متحد کرنا تھا کہ امریکی انخلا کے بعد مُلک کیسے چلایا جائے۔

طالبان کا کہنا ہے کہ وہ ملّا عُمر کے پیروکار ہیں اور وہ اُنہی کے نظامِ حکومت کی حمایت کریں گے، جب کہ افغان حکومت کا اصرار ہے کہ مُلک میں کئی بار انتخابات ہوچُکے ہیں اور اگر کسی بھی سیاسی قوّت کو اقتدار میں شریک ہونا ہے، تو ووٹ کے ذریعے ہی ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔غالباً اِن دونوں انتہاؤں کے درمیان ہی کسی قسم کا معاملہ طے ہوسکتا ہے اور وہ ہے قومی افغان حکومت کا قیام، جس کے بعد بین الاقومی ثالثوں اور ضامنوں کے تحت عام انتخابات کروا دیے جائیں۔اِس ضمن میں اقوامِ متحدہ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے کہ اس میں پانچ بڑی طاقتیں بھی شامل ہیں۔اِس کے علاوہ، پاکستان اور بھارت بھی خطّے میں بڑے کھلاڑی بن کر سامنے آئے ہیں، وہ بھی اِس عالمی فورم پر موجود ہیں۔البتہ، پاکستان کی زیادہ اہمیت اِس لیے ہے کہ وہ گزشتہ پچاس برس سے افغانستان کے معاملات میں براہِ راست شامل رہا ہے۔ 

پہلی افغان وار ہو یا دوسری جنگ۔ طالبان کا اقتدار، امریکی قبضہ، القاعدہ کے معاملات اور متحارب گروہوں میں مذاکرات، غرض کہ تمام ہی معاملات میں پاکستان کا کلیدی کردار رہا ہے۔ظاہر ہے، ایسی صُورت میں امریکا کی خطّے سے واپسی کے پاکستان پر براہِ راست اثرات مرتّب ہوں گے۔پاکستان نے افغانستان سے ہونے والی دراندازی روکنے کے لیے سرحد پر 22 سو کلومیٹر طویل باڑ لگائی ہے اور گیٹس بھی بنائے ہیں تاکہ ہرطرح کی آمد و رفت ریگولیٹ کی جاسکے۔ 

نیز، اس رُوٹ سے افغانستان یا وسط ایشیا کے ساتھ تجارتی معاملات بھی ضابطے میں لائے جاسکیں۔اس میں سرفہرست اسمگلنگ پر قابو پانا ہے، کیوں کہ اس نے پاکستان کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نققصان پہنچایا ہے۔یہ بھی ذہن میں رہے کہ پاکستانی طالبان یعنی کالعدم تحریکِ طالبان کے مختلف دھڑے افغان سرزمین پر موجود ہیں اور یہاں ہونے والے زیادہ تر دہشت گردی کے واقعات میں اُنہی کا ہاتھ ہے۔سرحدی انتظامات سے اُن کی نقل و حرکت روکنے میں بھی مدد ملے گی۔

جو بائیڈن انتظامیہ کا شروع ہی سے اصرار رہا ہے کہ پاکستان، طالبان کے معاملے میں زیادہ فعال کردار ادا کرے تاکہ اُس کے لیے فوجی انخلا آسان اور محفوظ ہوسکے۔افغان طالبان اب امریکی فوجیوں کو نشانہ نہیں بنا رہے،اُن کا ٹارگٹ افغان ادارے اور فورسز ہی ہیں۔غالباً وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ امریکا کے جانے کے بعد اُن کی فوجی طاقت کے سامنے سب بے بس ہوں گے۔لیکن یہ بات اُن کے حق میں بہتر نہیں نظر آتی، کیوں کہ امریکا ایسے انتظام پر زور دے رہا ہے، جس کے ذریعے وہ ایک خاص عرصے تک افغان صورتِ حال کو فوجی طور پر مانیٹر کرسکے۔اِس ضمن میں اُن فوجی اڈّوں یا سہولتوں کا ذکر بھی ہورہا ہے، جو اُس نے پاکستان کی سرزمین پر مانگی ہیں۔ 

وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی نے اِن اطلاعات کو یک سر مسترد کردیا، تاہم وزارتِ خارجہ کی پریس ریلیز میں اُن سہولتوں کا ذکر موجود ہے، جو 2001 ء کے بعد امریکا کو حاصل رہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ بائیڈن کے تعلقات کچھ زیادہ خوش گوار نہیں ہیں۔پوری کوشش کے باوجود ابھی تک صدر بائیڈن اور وزیرِ اعظم، عمران خان کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ نہیں ہوسکا۔ امریکی وزیرخارجہ کا شاہ محمود قریشی سے جو رابطہ ہوا تھا، وہ بھی اسلام آباد کے نقطۂ نظر سے زیادہ خوش گوارنہیں تھا۔ واشنگٹن کے حالیہ دَورے میں اُن کی امریکی ہم منصب سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ ویسے اطلاعات کے مطابق اسلام آباد نے امریکی انخلا کے بعد کے منظر نامے پر اپنے کردار کے بارے میں واضح پروگرام بتادیا ہے، جس کا امریکا کی جانب سے جواب آنا ہے کہ وہ اُسے کس طرح دیکھتا ہے۔ 

جوبائیڈن نے اب تک مشرقِ وسطیٰ، مغربی ایشیا اور انڈو پیسیفک کے بارے میں جو پالیسی اختیار کی ، اُس میں اپنا کردار متعیّن کرنا اسلام آباد کے لیے بے حد اہم ہے۔ امریکا نے چین، روس اور بھارت سے بھی کہا ہے کہ وہ اُس کے فوجی انخلا کو نوّے کے عشرے کی صُورت اختیار کرنے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔چین اور روس اس معاملے کے اہم اسٹیک ہولڈر ہیں اور بھارت بھی غیر مستحکم افغانستان نہیں دیکھنا چاہے گا۔چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے اور ایران میں اُس کی 400 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری افغانسان سے متاثر ہوسکتی ہے، جسے وہ کسی بھی صُورت منظور نہیں کرے گا۔

نیز، وہ افغانستان سے ملحقہ اپنے بعض مسلم اکثریتی سرحدی علاقوں کو طالبان جیسے اثرات سے محفوظ رکھنا چاہے گا۔روس بھی اپنی آزاد کردہ وسط ایشیائی ریاستوں کی وجہ سے طالبان کے اثر و رسوخ کو ایک حد سے بڑھنے نہیں دے گا۔ماہرین کے مطابق، ان تحفّظات کو سامنے رکھا جائے، تو طالبان کا افغان سرزمین پر یک طرفہ طاقت وَر ہونا شاید کسی کے لیے بھی فی الحال قابلِ قبول نہیں لگتا۔ہاں، سیاست میں آنے کے بعد صُورتِ حال ضرور تبدیل ہوسکتی ہے۔اسی لیے امریکی فوج کی واپسی کے پس منظر میں چین اور پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک طالبان کے ساتھ بعد کے منظر نامے پر بات چیت کر رہے ہیں اور سب کی کوشش ہے کہ وہ اپنا فوجی کردار بڑھانے کی بجائے مُلکی تعمیر و ترقّی میں زیادہ حصّہ لیں۔

مشرقِ وسطیٰ میں فلسطین ایک مرتبہ پھر دنیا بھر کی نگاہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ حالیہ اسرائیلی حملوں نے بہت سے سوالات جنم دیے ہیں۔ غزہ، جو حماس کے زیرِ انتظام ہے، ایک مرتبہ پھر کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے۔اِن دنوں محمود عباس فلسطینی ریاست پر حکومت کر رہے ہیں، لیکن وہ اپنی بیڈ گورنینس کے سبب انتہائی غیر مقبول ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اِسی لیے فلسطینی ریاست کے انتخابات ملتوی کیے گئے، جو مئی میں ہونا تھے۔ حماس کا یہ بیانیہ لوگوں میں جڑ پکر رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف جدوجہد کی فرنٹ لائن پر ہے۔ پاکستان اپنے اصولی موقف کے مطابق فلسطین کی بھرپور حمایت کر رہا ہے۔تاہم، وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ پاکستان کا اِس معاملے میں کردار خاصا محدود ہے۔

اس کے پاس اقصادی طاقت نہیں کہ وہ فلسطینیوں کی معاشی مدد کرسکے۔حالیہ جنگ میں عرب ممالک، تُرکی اور ایران بھی بیانات ہی تک محدود نظر آئے۔ ایرانی صدارتی الیکشن، عربوں کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات، مسلم ممالک کی اقتصادی کم زوریاں، باہمی اختلافات اور جو بائیڈن کا سخت موقف کہ امریکا، اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے، وہ عوامل تھے، جو اس معاملے پر اثر انداز ہوئے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا، عربوں کی حد تک تو مشرقِ وسطیٰ میں لو پروفائل پالیسی رکھے گا، لیکن اسرائیل بہرحال علاقے میں اُس کا سب سے اہم اتحادی ہے۔پاکستان اپنے اصولی موقف کو سامنے رکھتے ہوئے اس معاملے سے کیسے نمٹتا ہے، یہ اہم ہوگا۔ 

فلسطینیوں کے لیے آپس کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے، تب ہی دو ریاستی عمل آگے بڑھ سکے گا، وگرنہ اگلی جنگ دروازے کے قریب ہی ہے۔جذبات اپنی جگہ ،مگر مسلم دنیا کو تنازعات کے حل کے لیے بین الاقوامی مسلمہ اصولوں ہی پر چلنا پڑے گا۔یاسر عرفات نے بھی فلسطین کے حل کے لیے ہتھیار چھوڑ کر مذاکرات کی راہ اپنائی تھی۔کیمپ ڈیوڈ مذاکرات پر مختلف آرا ء رکھی جا سکتی ہیں، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اُسی کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی قائم ہوئی تھی۔خارجہ پالیسی کے تعیّن میں پاکستان کے محدود آپشنز کا سبب اُس کی کم زور معیشت ہے، جسے یا تو ایڈریس کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی یا پھر یہ سوچا جاتا ہے کہ اگر قوم کی توجّہ بیرونی معاملات اور خارجہ امور پر رکھی جائے، تو شاید اس سے عوام میں حکومت کا بہتر امیج جائے گا۔

حالاں کی اب ساری دنیا اقتصادیات ہی پر توجّہ مرکوز رکھے ہوئے ہے۔اس کی ایک بڑی مثال جنوب مشرقی ایشیا میں جاپان ہے، جس نے ایٹم بم سے تباہی کا سامنا کرنے کے دس سال ہی میں سوویت یونین جیسی سُپر پاور کو معیشت میں پیچھے چھوڑ دیا۔اِسی طرح یورپ میں مغربی جرمنی اور بعد میں متحدہ جرمن قوم ایک عظیم معاشی طاقت بنی۔ملائشیا اور پھر چین جیسے اقتصادی دیو نے میدان میں قدم رکھا اور بیس سال میں ہر طرف صرف مارکیٹ، مال اور تجارت کا ذکر ہونے لگا۔ان کی دیکھا دیکھی دنیا بھر میں معاشی ترقّی ہی اہداف بنے۔دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی خارجہ پالیسی معیشت کی مارکیٹنگ پالیسی بنتی گئی۔اب دنیا میں اُسی کی عزّت ہے اور وہی طاقت ور تسلیم کیا جاتا ہے، جس کے پاس اقتصادی قوّت ہو۔

اب اپنے عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنا ہی کام یاب خارجہ پالیسی کا پیمانہ ہے۔صرف بیانات، تقاریر اور تحریکوں پر زور کی اہمیت ختم ہوچُکی۔آج اگر آپ کے پاس اسلحے کے انبار ہیں اور دنیا میں کوئی تحریک بھی چلا رہے ہیں، لیکن اس کے پیچھے اقتصادی قوّت نہیں، تو دنیا میں آپ کے فلسفے پر کوئی کان نہیں دھرے گا۔پچاس لاکھ آبادی کا سنگاپور عالمی سطح پر کروڑوں کی آبادی کے مُلک سے زیادہ عزّت دار ہے اور وزن رکھتا ہے۔

مگر کیا کیجیے، ہمارا سارا زور آج بھی خارجہ امور میں اسی بات پر ہے کہ مسلم دنیا کو عالمی معاملات میں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں؟ جب کہ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم خود کیا کر رہے ہیں اور کہاں کھڑے ہیں؟دراصل معاشی و معاشرتی ترقّی،قوم کے رویّے کا دوسرا نام ہے کہ وہ قوموں کی صف میں کہاں کھڑی ہونا چاہتی ہے۔لہٰذا، ہمیں بلاوجہ کے معاملات میں دخل اندازی بند کرکے تنازعات میں الجھنے کی بجائے اپنے عوام کو معاشی ترقّی کے لیے تیار کرنا ہوگا۔

تازہ ترین