• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ( بجٹ تجزیہ ۔۔ فرحان بخاری ) وفاقی بجٹ میں اہم اسٹیک ہولڈرز کو وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے بڑے پیمانے پر مراعات کا پیکیج دیا ہے جس کا بظاہر مقصدد 2023 کے آئندہ عام انتخابات میں اپنی پارٹی کی کامیابی کے لئے راہ ہموار کرنا ہے ۔ لیکن اس کے متضاد پارلیمنٹ میں وزیر خزانہ شوکت ترین کی تقریر کے موقع پر شور شرابہ اور جھگڑالو ماحول نے فضا کو مکدر اور کشیدہ کر دیا ۔

حتیٰ کے شوکت ترین کے خطاب سے قبل کلریکل اسٹاف نے تنخواہوں میں 15 فیصد اضافے کی اطلاعات کو مسترد کر دیا ،وزیر خزانہ نے خود اپنے خطاب میں اضافہ دس فیصد بتایا ۔

گو کہ اسٹاک مارکیٹ میں چھوٹے سرمایہ کاروں اور چھوٹی کاروں کے خریداروں ٹیکسوں کی کم شرح سے فائدہ پہنچے گا لیکن بجٹ میں پاکستان کے اقتصادی مستقبل کے بارے میں اہم سوالات جواب طلب ہیں ۔

اقتصادی شرح نمو میں حکومت کی جانب سے دکھایا گیا متنازع اضافہ کے ساتھ ہی آئندہ مالی سال کے لئے ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 900 ارب روپے لگایا گیا ہے جو گزشتہ کے مقابلے میں ایک تہائی زیادہ ہے ۔ 

8500 ارب روپے اخراجات کے تخمینی ہدف کا اعلان کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے خوشحالی اور ترقی کی جانب پیش قدمی کا دعویٰ کیا لیکن جمعہ کو پیش کردہ بجٹ میں دو نمایاں خلا موجود ہیں ۔

 ایک طرف تو پاکستان کی ٹیکس وصولیوں میں مالی ہدف میں بڑے اجافے کی ضرورت ہے ۔

 پاکستان میں گزشتہ حکومتوں نے ہر سال مسلسل جولائی میں بجٹ پیش کیا اور وقت گزرنے کے ساتھ خود کو اہداف تک پہنچنے میں ناکام پایا ۔اس میں مسلسل ناکامی کے کئی ایک عوامل رہے ہیں ۔

 اس میں ٹیکس وصولیوں ٹیکس مشنری کی ناکامی بھی ایک وجہ رہی ہے ۔ اس میں بنیادی عنصر مسلسل حکومتوں کی ٹیکس چوروں سے نمٹنے میں ناکامی رہی ہے ۔ 

ملک میں ٹیکس چوری کی ابتدا پارلیمنٹ سے چند کلومیٹرز فاصلے پر کمرشیل ڈسٹرکٹ بلیو ایریا سے شروع ہو کر پورے ملک میں پھیل جاتی ہے ۔

 بلیو ایریا میں ٹیکس چوری طعام گاہوں سے شروع ہو تی ہے جہاں سیلز ٹیکس کے بغیر سادہ کاغذ پر رسید دے دی جا تی ہے ۔ بڑے شہروں میں بھی یہی رواج ہے ۔

دوسری جانب پاکستان میں پیداواری مواقع بڑھانے میں ناکامی کی بڑی وجہ اہم شعبوں میں طویل المعیاد پالیسی طے کرنے میں ناکامی ہے ۔ 

شوکت ترین نے اس جانب درست نشاندہی کی کہ پاکستان کو شرح نمو میں اضافے کو برقرار رکھنے کے لئے ہر سال برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا ،بجٹ میں مختص رقوم سے آگے پاکستان کو اہم اقتصادی شعبوں میں کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔

 ان میں انفرا اسٹرکچر جیسے ریسرچ ادارے ، کپاس اور چاول جو پاکستان کی کلیدی پیداوار رہی ہیں ، ان کے احیا کی ضرورت ہے ۔اسی طرح ملک کا صنعتی شعبہ عالمی منڈیوں میں اپنی جگہ کھودی یا انہیں بنانے میں ناکام دہا مختصراَ بجٹ کو اب بھی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا ۔

آئی ایم ایف جمعہ کو اعلان کردہ ٹیکسوں سے زیادہ کا تقاضا کرتا ہے۔ پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں یہ ایک بد قسمتی یہ بھی ہے کہ مرکزی بجٹ کے اعلان کے بعد منی یا عبوری بجٹ آنے کا سلسلہ نہیں رکتا۔

تازہ ترین