ملک میں سیاست کا انداز تبدیل ہوچکا ہے۔ ہرشخص مہنگائی سے پریشان ہے۔ پچھلی حکومتوں کے ادوار یاد کئے جا رہے ہیں۔ معیشت کی ابتر صورتحال اور تحریک انصاف کی حکومت کے دعوئوں کا حقیقت حال سے کوئی تعلق نہیں۔ کراچی کے عوام تو پہلے 182ارب کے پیکیج کا انتظار کرتے رہے اسکے بعد 1100ارب کے پیکیج کا اعلان بھی محض اعلان ہی رہا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت اپنے حصے کا کام تو کر رہی ہے لیکن وفاق کی تسلی تشفی اب بھی پہلے دن کی طرح جاری ہے۔ عوام تو سوال کر رہے ہیں کہ حیدرآباد کی یونیورسٹی جسکا افتتاح وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں ہوا تھا وہ زمین پر کب آئیگی۔ اسکی تو ابھی تک کوئی زمین ہی نہیں ہے۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی کھری کھری باتیں بھی حکومت اور ان کے ترجمانوں کے لئے پریشان کن ہیں۔ ایک طرف پانی کا مسئلہ سنگین ہے۔ پی پی پی اس پر 3جون سے 15جون تک ضلعی سطح پر احتجاج کر رہی ہے۔ سندھ میں پانی کی شدید کمی سے زمینیں بنجر ہو رہی ہیں۔ جس سے زراعت کو اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ سندھ کو ارسا سے پانی کی 40فیصد کمی ہے۔ چشمہ جہلم لنک کینال اورٹی پی کینال غیر قانونی بہائے جا رہے ہیں جبکہ 1970ء کے معاہدے کے تحت چشمہ کینال اس وقت بہایا جائے گا جب صوبے کے پانی کی ضروریات پوری ہوں گی۔ مگر سندھ ٹیل پر ہونے کے باوجود اس کو اس کے حصے کا پانی نہیں دیا جا رہا ہے بلکہ اس کینال کو غیر قانونی طور پر بہایا جا رہا ہے۔ تونسہ بیراج سے لیکر گڈو بیراج تک غیر قانونی طور پر پمپنگ مشینیں لگا کر سندھ کا پانی چوری کیا جا رہا ہے۔ جس پر ارسا اور اسکے چیئرمین خاموش ہیں۔ سندھ کا مطالبہ ہے کہ چشمہ جہلم لنک کینال اور ٹی پی کینال کو فوری بند کیا جائے اور کوٹری سے نیچے 10ایم اے ایف پانی چھوڑا جائے۔ پی پی پی سندھ کے صدر نثار احمد کھوڑو کا یہ کہناہے کہ ایک طرف سندھ میں پانی کی شدید کمی ہے دوسری جانب سندھ میں 18,18گھنٹے بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کرکے مشکلات پیدا کردی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ پانی کے 1991کے معاہدے پر اس وقت بھی اعتراضات اٹھائے گئے تھے مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا جبکہ پانی کی شفاف تقسیم کی ذمہ داری ارسا کی ہے۔ یکم مئی سے چاول کی کاشت کے لئے پانی چھوڑا جاتا تھا جو نہیں چھوڑا گیا۔ سکھر میں 90ہزار کیوسک پانی کے بجائے 48ہزار کیوسک پانی چل رہا ہے۔ سندھ ٹیل پر ہے لیکن اسے پانی دینے کے بجائے گدوسے اوپر پمپنگ کے ذریعے چوری ہونے والے پانی پر ارسا کی خاموشی نے ایک اور مسئلہ پیدا کردیا ہے۔ پانی کی منصفانہ تقسیم جائز مطالبہ ہے۔ وفاق کو اس پر منصفانہ قدم اٹھانا چاہئے۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے اس پر سخت گیر موقف اختیار کیا ہے جس سے کسانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ احتجاج میں انکی شمولیت ایک بڑا فیصلہ ہے۔ پانی کی کمی دور نہ کی گئی تو زراعت پر بڑا اثر پڑے گا۔ چاول کی فصل بھی متاثر ہوگی۔ پیپلزپارٹی نے خالص کسانوں کے مسئلہ پر آواز اٹھائی ہے۔ بلاول بھٹو نے سندھ کے ساتھ کسی بھی زیادتی پر اسٹینڈ لیا ہے جس میں اٹھارویں ترمیم، صوبوں کی خود مختاری پر سازش کا معاملہ ہو یا جزائر پر وفاق کے قبضے، سندھ کے وسائل اور ملک کی معیشت، مہنگائی، سب پر ببانگ دہل آواز بلند کی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں احتساب کے نام پر سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے۔ انصاف کا ایک نہیں دو نظام چل رہے ہیں۔ سندھ کی سیاست میں پیپلز پارٹی کی کامیابی دیکھ کر سازشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ کراچی اور شہری علاقوں میں پی پی پی کی دبنگ انٹری نے بہت سے سیاست دانوں کو بوکھلا کر رکھ دیا ہے۔ وہ کراچی میں صوبہ اور دیگر نعروں سے عصبیت اور ٹکراؤ کی پالیسی کو اپنا کر پوائنٹ اسکورنگ کر رہے ہیں۔ جبکہ اسکے لئے تاجر برادری کو اکسا کر غیر یقینی کی کیفیت پیدا کی جا رہی ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی نے تاجروں کے احساسات کو تسلیم کرتے ہوئے بہتری کی یقین دہانی کرائی لیکن احتجاج کی سیاست کرنے والوں نے انہیں مشتعل کرنے اور امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی طرف لگا دیا ہے جسکا مقصد کورونا کی روک تھام کے لئے کی گئی کوششوں کو سبوتاژ کرنا ہے جبکہ اس سختی سے کورونا کیسوں میں کمی آئی ہے۔ پیپلزپارٹی کی تیزی سے کراچی میں گرفت، نوجوانوں کی شمولیت اور اس پر اعتماد سے بھی کراچی کے اسٹیک ہولڈرز جو مختلف جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں، حواس باختہ ہیں۔ وزیراعظم فرماتے ہیں کہ جی ڈی پی گروتھ ریٹ پر مخالفین حیران ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، دوسری یہ کہ شرح نمومیں اضافہ ہوا کیسے؟ سماجی شخصیات کا کہنا ہے کہ عام آدمی ملکی بجٹ میں نئے ٹیکسز، جی ڈی پی، ترقیاتی پروگرام سے کوئی سروکار نہیں رکھتا۔ اسے تو روزگار، دو وقت کی روٹی کی فکر ہے۔
خواب دکھائے جا رہے ہیں۔ سندھ کے عوام اب کسی جھانسے میں نہیں آئیں گے۔ سکھر میں اعلان کردہ 464ارب اور کراچی کے لئے 1100ارب کب ملیں گے؟وفاقی حکومت نے ایک حلیف جماعت کو ایک بار پھر کراچی کے لئے فنڈز کی یقین دہانی کرائی ہے۔ لیکن سندھ کے شہری علاقوں کے عوام پی ٹی آئی کی حکومت سے پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ تین سال میں کراچی کے لئے کیا کیا؟ سکھر کے لئے کیا کیا؟ صرف دورے اور اعلانات ہی سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کا مقدر ہیں۔ بلاول بھٹو روزانہ جس طرح حکومت کی کمزوریوں قرضوں سے ملک کا بیڑا غرق کرنے کی داستانوں اور آئی ایم ایف کی شرائط کا تذکرہ کرتے ہیں۔ وہ ہی حقیقت ہے۔ عوام کو ریلیف چاہئے جو حکومت دینے میں ناکام نظر آتی ہے۔ عوام کی نظریں پی پی پی کی طرف ہیں جو روزگار اور عوامی فلاح و بہبود کے پروجیکٹ لاتی ہے، بے نظیر کارڈ اس کی ایک مثال ہے۔ کراچی میں بھی سندھ حکومت ہی کام کر رہی ہے اور بگڑے اداروں کی حالت زار بھی درست کر رہی ہے۔ وفاق کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)