’شعلے‘ بھارتی سینما کی پہلی ”بلاک بسٹر“ فلم تھی۔ اس فلم کی کہانی مشہور بھارتی نغمہ نگار جاوید اختر اور اداکار سلمان خاں کے والد سلیم خاں نے مل کر لکھی تھی۔ یہ جوڑی اس وقت ”سلیم جاوید“ کہلاتی تھی۔ اگرچہ کہا یہ جاتا ہے کہ دونوں نے ’شعلے‘ کی کہانی کئی انگریزی فلموں کو Cut, Paste کر کے لکھی، تاہم دونوں کی محنت سے ایک سپرہٹ فلم معرض وجود میں آئی جس میں ڈاکو گھبر سنگھ کا کردار فلم کی جان تھا۔ یہ لازوال کردار مرحوم امجد خاں نے یوں ادا کیا کہ حق ادا کر دیا۔ اس فلم کے مکالمے بہت مشہور ہوئے۔ ایسے ہی ایک سین میں جب گھبر سنگھ کے ساتھی رام گڑھ گاؤں پر حملہ کرتے ہیں تو جے اور ویرو (امیتابھ اور دھرمیندر) انہیں پسپا کر دیتے ہیں۔ ڈاکو زخمی ساتھیوں کو گھوڑوں پر لادے، اپنے سردار گھبر سنگھ کے پاس پہنچتے ہیں تو وہ دو افراد کے ہاتھوں اپنے درجنوں ساتھیوں کی شکست پر برہم ہوتا ہے، مگر پُر سکون چہرے کے ساتھ وہ اپنے ساتھیوں کی جواب طلبی کرتا ہے اور بزدل ڈاکوؤں کو گولی مار دیتا ہے!
فلم کے اس سین کو (جو یقینا قارئین کو یاد ہو گا) انٹر نیٹ پر کسی ستم ظریف نے بدل دیا ہے۔ ہم یہ تحریف شدہ ڈائیلاگ اپنے قارئین کو بھی پڑھاتے ہیں۔ کیوں؟ اس پر بات بعد میں ہو گی۔ سین وہی ہے، ڈاکو شکست کھا کر واپس آئے ہیں۔ گھبر سنگھ اپنے نائب ’سامبا‘ سے پوچھتا ہے
گھبر سنگھ: ارے او، سامبا
سامبا: جی سردار… حکم
گھبر سنگھ: ہمرے آدمی، جن لوگن سے مار کھا کر آئے، وہ کتنے تھے!
سامبا: سردار… دو آدمی تھے!
گھبر سنگھ: مجھے گنتی نہیں آتی… یہ دو کتنے ہوتے ہیں؟
سامبا: دو… ایک کے بعد آتا ہے۔
گھبر سنگھ : اور دو سے پہلے کیا آتا ہے؟
سامبا: سردار… ایک آتا ہے!
گھبر سنگھ: تو ایک اور دو کے بیچ میں کیا آتا ہے؟
سامبا: سردار… بیچ میں کوئی نہیں آتا
گھبر سنگھ: بیچ میں کوئی نہیں آتا تو دونوں ساتھ ساتھ کیوں نہیں آتے؟
سامبا: سردار ایک کے بعد دو آتا ہے کیونکہ دو، ایک سے بڑا ہے۔
گھبر سنگھ: دو، ایک سے کتنا بڑا ہے؟
سامبا: دو، ایک سے ایک بڑا ہے۔
گھبر سنگھ: اگر دو، ایک سے ایک بڑا ہے تو ایک، ایک سے کتنا بڑا ہے؟
یہاں پہنچ کر سامبا کی ہمت جواب دے گئی اور سردار کو مزید گنتی سکھانے کے قابل نہ رہا اور اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا
سامبا: سردار… میں نے آپ کا نمک کھایا ہے، گولی بھی کھا لوں گا، مگر ایسی گنتی مجھے بھی نہیں آتی!“
ہمیں یہ سارا قصہ، گھبر سنگھ، سامبا اور الٹی گنتی… پشاور ہائیکورٹ کے عزت مآب چیف جسٹس دوست محمد خاں کے خطاب کی خبر پڑھ کر یاد آئے! جج صاحب نے جو فرمایا، وہ اس قابل ہے کہ مارگلہ کی پہاڑیوں پر موٹے موٹے الفاظ میں تحریر کرایا جائے تاکہ سیاست دان اور حکمران اسے ہر صبح سویرے پڑھ کر اپنے کام کا آغاز کریں۔ جسٹس دوست محمد خاں فرماتے ہیں۔
”پٹوار خانے سے ایوان صدر تک کرپشن عام ہے، جس کو روکنے کے لئے اعلیٰ سطح کا آئینی ادارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے جو صدر وزیراعظم سمیت لوگوں کو قانون کے شکنجے میں لائے۔ اگر کرپشن کا خاتمہ کر دیا جائے تو آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے قرضے لینے کی ضرورت نہیں۔ کرپشن میں صدر، وزیراعظم، وزراء یا ججوں میں سے جو کوئی بھی ملوث ہو، اس پر ہاتھ ڈالنا چاہئے۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ جب اینٹی کرپشن کا ادارہ قائم ہوا تو کرپشن چار گنا بڑھ گئی۔ جب ایف آئی اے بنی تو کرپشن میں دس گنا اضافہ ہوا۔ کرپشن ختم کرنے کے لئے قائم ہونے والے ادارے خود کرپشن میں ملوث ہیں۔“
جناب جج صاحب نے ملک میں ”کرپشن راج“ کے بارے میں جو فرمایا، درست فرمایا۔ کرپشن کے QUANTUM (تعداد، مقدار، حد) کے بارے میں ان گنت شواہد موجود ہیں۔ اینٹی کرپشن کے سب سے بڑے ادارے NAB کے برطرف چیئرمین ایڈمرل فصیح بخاری بھی اربوں روپے روزانہ کرپشن کی کہانیاں سنایا کرتے تھے! مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ختم کیسے ہو؟ جناب جج صاحب نے ایک طرف کرپشن کے خاتمے کے لئے ادارہ بنانے کی بات کی ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہہ دیا کہ اینٹی کرپشن کے ادارے قائم ہوتے ہیں تو کرپشن کئی گنا بڑھ جاتی ہے!
آخر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ کیسے باندھے!
پاکستان کے عوام کی اکثریت، تلاش معاش میں، گھبر سنگھ کی طرح گنتی بھول چکی ہے اور اپنی چھوٹی موٹی وارداتوں میں مگن ہے قیام پاکستان کے فوراً بعد، محکمہ آباد کاری کی الاٹمنٹوں اور درآمدی پرمٹوں سے شروع ہونے والی کرپشن، اب کینسر کی طرح اس معاشرے کے انگ انگ تک پھیل چکی ہے۔ معاشرے میں تبدیلی اور اصلاح کی خواہش کے باوجود، ایسا ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا #
صبر و طاقت تو کبھی کے کوچ یاں سے کر گئے
اب وداعِ ننگ ہے اور رخصتِ ناموس ہے
عزت مآب جناب چیف جسٹس دوست محمد خاں کے نیک خیالات اور جذبات کے لئے تحسینِ صد ہزار… مگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ معاشرہ جہاں تک تنزل کا شکار ہو چکا، اب یہاں کچھ نہیں بدلے گا
نہ میں بدلا، نہ تم بدلے، نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیوں کر اعتبارِ انقلابِ آسماں کر لوں