کراچی (اسٹاف رپورٹر )انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدلت میں کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کا اقبالی بیان جمع کرایا گیا۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر عزیر بلوچ کے 164 کے بیان پر متعلقہ مجسٹریٹ کو طلب کر لیا۔
جمعرات کو سینٹرل جیل میں انسداد دہشتگردی کمپلیکس میں خصوصی عدالت میں قانون نافذکرنے والے حکام کی جانب سے عزیر بلوچ کا اقبالی بیان جمع کرایا گیا۔
کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ نے اقبالی بیان میں اہم انکشافات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنمافریال تالپور، سینیٹر شہادت اعوان، ایس ایس پی فاروق اعوان و دیگر کے راز کھول دئیے۔
اقبالی بیان میں کہا گیا ہے کہ بھتہ کی مد میں کروڑوں روپے محکموں اور لوگوں سے وصول کئے۔محکمہ فشریز سے مجھے ماہانہ 20لاکھ روپے اور فریال تالپور کو ایک کروڑ روپے بھتہ ملتا تھا۔ فشریز کے ڈائریکٹر سعید بلوچ اور نثار مورائی کو میرے کہنے پر تعینات کیا گیا۔
سینیٹر شہادت اعوان، ایس ایس پی فاروق اعوان اور سی سی پی او وسیم احمد سے دوستانہ تعلقات تھے۔ میں نے شہادت اعوان اور فاروق اعوان کو زمینوں پر قبضہ کرنے میں مدد کی۔
دونوں کی سموں گوٹھ ملیر میں 15ایکڑ جبگہ گڈاپ ٹاؤن میں زمینوں پر قبضہ کرنے میں مدد کی۔ فاروق اعوان کے علاقے سے ماہانہ ڈیڑھ دو لاکھ روپے بھتہ وصول کرکے اسے دیا کرتا تھا۔ عزیر بلوچ نے اقبالی بیان میں کہا کہ میں نے 2003 میں لیاری گینگ وار میں شمولیت اختیار کی۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کے فیصل رضا عابدی اور جیل سپرنٹنڈنٹ نصرت منگن کے کہنے پر پیپلز پارٹی کے قیدیوں کا ذمہ دار بنایا۔2008 میں رحمان ڈکیت کی ہلاکت کے بعد لیاری گینگ وار کی مکمل کمان سنبھال لی۔ 2008 میں ہی پیپلز امن کمیٹی کے نام سے مسلح دہشتگرد گروہ بنایا۔ 2008 سے 2013 تک کوئٹہ اور پشین سے اسلحہ منگوایا۔
اسلحہ سے شہر میں اغوا برائے تاوان، قتل و غارت گری کی اور سیاسی جلسوں اور ہڑتالوں کو کامیاب بنایا۔ لیاری میں اپنی مرضی کے پولیس افسران اور اہلکار تعینات کروائے۔ پولیس افسران کو ذوالفقار مرزا، قادر پٹیل اور سینیٹر یوسف بلوچ سے تعینات کروایا۔
ان پولیس افسروں کی سرپرستی میں لیاری میں جرائم کیے۔ مارچ 2013 میں اپنے والد فیض محمد عرف فیضو کے قتل کا بدلہلیا۔ پولیس افسروں جاوید بلوچ اور چاند نیازی کی مدد سے ارشد پپو ،اسکے بھائی اور ساتھی کو اغوا کیا۔
ان تینوں کے سر تن سے جدا کر کے لیاری کی گلیوں میں فٹ بال کھیلا اور لاشوں کو جلا دیا۔ دہشت پھیلانے کے لیے لاشوں کی ویڈیو بنا کر پورے ملک میں پھیلا دی۔ بعد ازاں عدالت نے آئندہ سماعت پر عزیر بلوچ کے 164 کے بیان پر متعلقہ مجسٹریٹ کو طلب کرلیا۔