شام تو آئے گی تعاقب میں
چاہے سورج کا گھر بنائے کوئی
پروفیسر جاذب قریشی کے اس شعر میں اگرچہ’ سورج ‘کا استعارہ دانش اور ہنر وری کے اجالے اور ’شام‘ کا استعارہ منافقت کے اندھیرے سے عبارت ہے لیکن ایک اور رخ سے دیکھا جائے تو ’سورج‘ انسانی جدوجہد کا اور ’شام‘ انسان کا تعاقب کرتی ہوئی موت کا تلازمہ بھی ہے ۔گذشتہ برس سے اب تک دستِ اجل نے جس طرح تخلیقی دانش رکھنے والے ہمارے بہت سے قلم کاروں پر وار کیا ہے اس سے قلم قبیلے میں شامل تمام افراد کے دل کرب سے دوچار ہیں ۔۲۱ جون ۲۰۲۱ء کو رفتگاں کے اس قافلے میں جاذب قریشی( اصل نام محمد صابر) بھی شامل ہوگئے جن کا آبائی شہر لکھنئو تھااور جو ۳ اگست ۱۹۴۰ء کو پیدا ہوئے۔
جس بچے کو صرف سات برس کی عمر میں عدالت میں پیش کیا گیا تھا تاکہ اسے تعلیم سے ہٹا کر محنت مزدوری پر لگایا جاسکے، اُس کا دل کہتا تھا کہ کوئی اور زندگی اس کی منتظر ہے لہٰذا لوہے کی ڈھلائی کاکام کرتے اور بھٹی کے شعلوں میں پگھلتے ہوئے ان ہاتھوں نے پاکستان ہجرت کے بعد کچھ اس طرح قلم تھاما کہ یہ ہاتھ آخر وقت تک تخلیق کی آنچ میں پگھلتے رہے۔
اپنی محنت کی بدولت منصبِ تدریس تک پہنچے،صحافتی اور ادبی ذمے داریاں ادا کیں، روزنامہ ’جنگ‘ کراچی کے ادبی صفحے کے چند سال نگراں رہے، فلم سازی بھی کی لیکن اس میں ناکام رہے، مختلف ممالک میں ہونے والے مشاعروں میں مقبول بھی رہے اور مشاعروں اور ادبی محافل کے منتظم بھی رہے ،شاعری اُن کی شناخت کا بنیادی حوالہ بنی اور تنقید میں بھی نام کمایا ۔’’شناسائی‘‘، ’’نیند کا ریشم‘‘،’’شیشے کا درخت‘‘،’’عکس شکستہ‘‘، ’’آشوبِ جاں ‘‘،’’عقیدتیں(حمدیں، نعتیں ،منقبت)‘‘، ’’جھرنے (نغمے، گیت)‘‘، ’’اجلی آوازیں (ہائیکو)‘‘اور ’’لہو کی پوشاک(آشوبی نظمیں)‘‘ اُن کے شعری مجموعے ہیں جن کا مجموعہ ’’پہچان‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ انھوں نے غزل، پابند نظم، آزاد نظم، نثری نظم، ہائیکو، ثلاثی ، حمد، نعت ، منقبت، قومی نظمیں اور گیت غرض متنوع شعری جہات میں کام کیا۔
نئے راستوں کے متلاشی رہے لہٰذا تازگیِ فکر اورجدید طرزِ احساس ان کی شخصیت اور فن کا حصہ بن گئے اسی لیے عزیز حامد مدنی نے ان کی شعری و نثری تحریروں میں فکر جدید کی بنیادی جستجو کا ذکر کیا۔جاذب قریشی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’تخلیقی اور عملی تجربے اگر رک جائیں تو فرسودگی اور پرانا پن سچے ادب کو اور آسودہ زندگی کو چاٹ جاتا ہے ‘‘انھوں نے شاعری میں مشکل راستے کا انتخاب کر کے اپنا سارا شعری سفر اسلوب کی تازگی اور تمثال نگاری کا پرچم تھام کر طے کیا۔
نئے استعارات، جدید تلازمات اور نامانوس لفظیات کے سبب انھیں مخالفتوں اور دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر وہ استقامت کے ساتھ اپنے شعری سفر پر گام زن رہے ۔قمر جمیل نے ان کے استعاروں کو اُن کی داخلیت اور معروضی دنیا کے درمیان آئینوں کی طرح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اکائیوں کو جوڑ کر وحدت بنادینے کا فن جانتے ہیں۔
سلیم احمد نے اُن کی شاعری کو ’’آئینہ سازی کا عمل ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ یہ آئینہ جاذب کے ہنر کا المیہ بھی ہے اور طربیہ بھی‘‘۔پروفیسر مجنوں گورکھ پوری نے ان کی نثری نظموں میں ادبی قرینے، شعری آہنگ اور عشق کی لابدی علامات کا ذکر کیا۔پروفیسر منظور حسین شور نے ان کے فن کو شاعری کے صحیفے میں جدید اور اجتہادی باب کا گراں قدر اضافہ قرار دیا ۔
ڈاکٹر وزیر آغا نے ان کی شاعری کی باطنی قوت اور بے تھکن مسافت کا ذکر کیا اور انھیں منفرد اسلوب کا خوش نصیب شاعر اور زمین و آسمان کے درمیان نہ رکنے والا مسافر کہا ۔حسین مجروح کہتے ہیں کہ ’’ہیئت سے حسیت اور اظہار سے موضوع تک ، جاذب قریشی کی شاعری نئی لفظیات اور تشکیلات کی شاعری ہے ۔وہ روایت کے قائل ہیں مگر اس کی انگلی پکڑ کر نہیں چلتے بلکہ اس سے ایک قدم آگے رہتے ہیں ۔‘‘ احمد ہمدانی، انجم اعظمی ،رئیس امروہوی ، ڈاکٹر فہیم اعظمی، جمیل الدین عالی ، پروفیسر ریاض صدیقی، پروفیسر نسیم نیشو فوز اور دیگر کئی اہم ناقدین نے ان کی شاعری اور استعاراتی نظام پر بات کی۔
شبنم رومانی نے لکھا کہ ’’ ان کے لفظ اور ترکیبیں، اشارے اور استعارے، علامتیں اور تشبی ہیں سب کی سب اردو کی شعری روایت میں اتنی دراکی سے وارد ہوئی ہیں کہ بہتوں کی سماعت کند ہوگئی ہے ۔نئے پن کو سمجھنے اور اس کو قبول کرنے کی صلاحیت ہر کسی میں نہیں ہوتی۔‘‘پروفیسر سحر انصاری نے بھی اپنے مضمون ’’نئی شعری فضا کا شاعر‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’اس شاعری کو اگر آپ سرسری مطالعے کے ذریعے ٹالنا چاہیں گے تو یہ شاعری آپ کے چہرے پہ جہل کی مہر لگا کر آگے بڑھ جائے گی۔‘‘اتنی ممتاز شخصیات کی آرا کے بعد بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ فطرت سے ہم آہنگی اس شاعری کا نمایاں وصف ہے ۔
امیجریز، علامتیں اور استعارے سب فطرت سے لیے گئے ہیں لیکن مجرد فطرت نگاری کے بجائے فطرت کی صفات کو علامت بنا کر اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ انسان کی ذاتی کیفیات، محسوسات اور انفرادی تجربات کے علاوہ پورا سماجی منظرنامہ تشکیل پاگیا ہے ۔ان کے ہاں رنگوں کا استعمال جس تسلسل اور مہارت سے ہوا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے وجود میں کسی شاعر کے ساتھ ساتھ کسی مصور کی روح بھی موجود تھی جس کی طرف اقبال مہدی نے بھی اشارہ کیا ہے۔ڈاکٹر اسلم فرخی نے انھیں ’فطری علامتوں کا شاعر‘اور احمد ہمدانی نے’ سماجی آشوب کا علامت نگار‘ کہا ہے ۔اس شاعری میں تہذیبی اقدار کی گم شدگی کا نوحہ بھی ہے۔چند مثالیں دیکھیے۔
اس دشت میں سیلاب مجھے چھوڑ گیا ہے
مجھ میں مری تہذیب کے آثار تو دیکھو
میری تہذیب کا باشندہ نہیں ہے وہ شخص
جو درختوں سے پرندوں کو اڑادیتا ہے
دعا مانگی تھی کس نے بارشوں کی
کہ دریا آملا میرے مکاں سے
باہر جو چراغاں ہے وہ ہے اور نسب کا
جلتا ہے جو مجھ میں وہ کوئی اور دیا ہے
برسوں سے ہے تہذیب کی آواز سفر میں
لیکن وہی میں ہوں وہی جنگل کی ہوا ہے
اُن کی نظموں میں بھی استعاراتی انداز اور علامتی طرزِ اظہار ہمیں جگہ جگہ تہ دار معنویت کے ذائقے سے آشنا کرتا ہے ۔یہ نظمیں عدم مساوات، سماجی ابتری ،جھوٹ ،منافقت اور فرد اور معاشرے کی منفی صورت حال سے پیدا ہونے والے کرب کو منعکس کرتی ہیں ۔
ایک مختصر نظم ’’کٹھ پتلی‘‘ملاحظہ کیجیے۔
میرے دونوں ہاتھ
سفید و سیہ طنابوں کے زندانی
میں خود اپنے جسم و جاں کو
جلتی ریت پہ کھینچ رہا ہوں
آنکھیں زرد غبار کا ایندھن
اور زباں سے گونگے لمحے چمٹ گئے ہیں
شاید میں بھی اپنے عہد کی کٹھ پتلی ہوں
پروفیسر جاذب قریشی نے تسلسل کے ساتھ کلاسیکی، نو کلاسیکی اور جدید اسلوب کے حامل اپنے عہد کے بڑے اور زندہ تخلیق کاروں کے علاوہ نئی نسل کے لکھنے والو ں پر اپنے خاص اسلوب میںجتنے زبردست تنقیدی و تجزیاتی مضامین تحریر کیے کسی اورنے نہیں لکھے ۔انھوں نے پیشہ ورانہ تنقید کے جنگل سے نکل کر اپنا الگ راستا بنانے اور فن کار کے تجربے کو پالینے کی کوشش کی ہے ۔
اسی عمل کو تخلیقی تجربے کی باز آفرینی کا عمل کہا جاتا ہے ۔انھوں نے اپنی تنقید میں اہم لکھنے والوں کے اسلوب اور لسانی پیرایۂ اظہار پر دیانت داری کے ساتھ اظہارِ خیال کیا ۔’’میں نے یہ جانا‘‘ ،’’ آنکھ اور چراغ ‘‘، ’’شاعری اور تہذیب‘‘ ،’’میری تحریریں ‘‘،’’ دوسرے کنارے تک‘‘،’’ نثری اسالیب‘‘،’’ امکان سے آگے‘‘اُن کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ہیں ۔’’تخلیقی آواز ‘‘ کے نام سے ان کے تنقیدی مجموعوں کا مجموعہ بھی شائع ہوا۔پروفیسر کرار حسین نے ان کی کتاب ’’ آنکھ اور چراغ ‘‘ کو اپنے زمانے کی آبِ حیات قرار دیا۔
انتظار حسین ،الیاس عشقی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری،ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر سلیم اختر، پروفیسر ریاض صدیقی ،زاہدہ حنا،خواجہ رضی حیدر،حسین مجروح ،شاہدہ حسن،امجد طفیل ،احسن سلیم اور کئی اہم لکھنے والوں نے تنقید میں اُن کے تخلیقی اور تجزیاتی رنگ اور دل کش اسلوب کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے ۔
انھوں نے روایتی تنقید کی طرح بھاری بھرکم اصطلاحات ،ثقیل الفاظ اور مرعوب کن مغربی حوالے دینے کے بجائے عصری صداقتوں اور تہذیبی صورت حال کی روشنی میں کسی تخلیق کار کے فن اور امکانات کا جائزہ لیا ہے اور کہیں کہیں فکری مباحث بھی اٹھائے ہیں۔
جاذب قریشی نے خود بھی اپنی تنقیدی کتاب ’’دوسرے کنارے تک کے دیباچے میں تحریر کیا ہے کہ ’’ میں نے اپنے کسی بھی مضمون کی بنیاد کسی لکھنے والے کی شخصیت پرنہیں رکھی ہے بلکہ ہر لکھنے والے کے یہاں اُس کے فکری، عملی تخلیقی اور جمالیاتی تجربوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ‘‘۔
انھوں نے بعض بہت اہم لوگوں مثلاً سلیم احمد اور ظفر اقبال سے کہیں کہیں فکری اختلاف بھی پوری قوت کے ساتھ کیا ہے ۔’’میری تحریریں‘‘میں شامل اُ ن کے ادبی کالم آج بھی سماجی زوال کے اس عالم میں ہمیں راستا دکھاتے ہیں ۔اُن کی شخصیت میں برادرانہ محبت اور بزرگانہ شفقت کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی کی خوبی بھی شامل تھی جس کا نئی نسل کے نمائندوں نے اعتراف کیا ہے۔ مجلس آرائی کے شوقین تھے ۔ زود رنج تھے لیکن زیادہ دیر کسی سے ناراض نہیں رہتے تھے،اپنی بیگم کی وفات کے بعد انھوں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور خاص کر بیٹیوں کی شادی کا فریضہ بڑے احسن طریقے سے انجام دیا ۔
علالت کے دوران میں بھی ایک نئی کتاب مرتب کر نے کی کوشش کرتے رہے، گویا احساسِ ذمے داری ،صبر، حوصلہ ، استقامت ، اپنی ذات پر اعتماد اور مسلسل محنت اور ریاضت اُن کی شخصیت کا لازمی جز تھے ۔اتنے کام کے باوجود انھیں نظر انداز بھی کیا گیامگر کسی اہم ایوارڈ یا انعام و اعزاز کے لیے انھوں نے کوئی لابنگ یا تگ و دو نہیں کی تاہم اپنے تخلیقی و تنقیدی سفر میں وہ پچاس برسوں کی ریاضت اور ادبی انہماک کی بدولت اعتبار اور وقار کی منزل تک پہنچے اور آخر کار راستے میں لمحۂ ترک سفر آجائے گا کے مصداق اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی